فرحان محمد خان
محفلین
غزل
کیا ہوئے بادِ بیاباں کے پکارے ہوئے لوگ
چاک در چاک گریباں کو سنوارے ہوئے لوگ
خوں ہوا دل کہ پشیمانِ صداقت ہے وفا
خوش ہوا جی کہ چلو آج تمھارے ہوئے لوگ
یہ بھی کیا رنگ ہے اے نرگسِ خواب آلودہ
شہر میں سب ترے جادو کے ہیں مارے ہوئے لوگ
خطِ معزولئ اربابِ ستم کھینچ گئے
یہ رسن بستہ صلیبوں سے اُتارے ہوئے لوگ
وقت ہی وہ خطِ فاصل ہے کہ اے ہم نفسو
دُور ہے موجِ بلا اور کنارے ہوئے لوگ
اے حریفانِ غمِ گردشِ ایّام آؤ
ایک ہی غول کے ہم لوگ ہیں ہارے ہوئے لوگ
ان کو اے نرم ہوا ، خوابِ جنوں سے نہ جگا
رات مے خانے کی آئے ہیں گزارے ہوئے لوگ
کیا ہوئے بادِ بیاباں کے پکارے ہوئے لوگ
چاک در چاک گریباں کو سنوارے ہوئے لوگ
خوں ہوا دل کہ پشیمانِ صداقت ہے وفا
خوش ہوا جی کہ چلو آج تمھارے ہوئے لوگ
یہ بھی کیا رنگ ہے اے نرگسِ خواب آلودہ
شہر میں سب ترے جادو کے ہیں مارے ہوئے لوگ
خطِ معزولئ اربابِ ستم کھینچ گئے
یہ رسن بستہ صلیبوں سے اُتارے ہوئے لوگ
وقت ہی وہ خطِ فاصل ہے کہ اے ہم نفسو
دُور ہے موجِ بلا اور کنارے ہوئے لوگ
اے حریفانِ غمِ گردشِ ایّام آؤ
ایک ہی غول کے ہم لوگ ہیں ہارے ہوئے لوگ
ان کو اے نرم ہوا ، خوابِ جنوں سے نہ جگا
رات مے خانے کی آئے ہیں گزارے ہوئے لوگ
عزیز حامد مدنی
1953ء
1953ء
آخری تدوین: