محمد حفیظ الرحمٰن
محفلین
غزل
محمد حفیظ الرحمٰن
کیسے بھولوں میں مقدر کی ستم رانی کو
جامہ خوش زیب دیا چاک گریبانی کو
گھِر کے آئی تھی گھٹا ، کھل کے برستی بھی رہی
تشنہ لب پھر بھی ترستے ہی رہے پانی کو
کِس قدر لرزہ براندام عدو ہوتا ہے
ناتواں ہاتھ جب اٹھتے ہیں نگہبانی کو
میں نے ہر ایک خطا دل سے بھلا دی تیری
تو نے بخشا نہ مری ایک ہی نادانی کو
عمر تو صرف ہوئی کارِ زیاں میں اپنی
اب فقیری میں چھپاتے ہیں تن آسانی کو