غزل: کیوں ہے ہم سے خدا خفا مت پوچھ ٭ تابش

ایک طرح پر تجرباتی کاوش، نقد و تبصرہ کے لیے حاضر۔ :)
احباب کی بصارتوں کی نذر:

کیوں ہے ہم سے خدا خفا مت پوچھ
ظلم اتنا ہوا روا، مت پوچھ

راہزن کر لیے شریکِ سفر
کیوں لٹا اپنا قافلہ مت پوچھ

منزلِ عشق کا ہے قصد تو پھر
پست ہمت سے راستہ مت پوچھ

اذنِ ساقی ہے آج، پینے دے
کیا ہے اس میں برا، بھلا مت پوچھ

فکرِ فردائے بے اماں بھی کر
"چار تنکوں کا ماجرا مت پوچھ"

رحمتِ حق سے آس ہے تابشؔ
ورنہ عصیاں کی انتہا مت پوچھ

٭٭٭
محمد تابش صدیقی
 

یاسر شاہ

محفلین
السلام علیکم تابش بھائی !
اچھی غزل ہے -نقد کے لحاظ سے یہی کہوں گا :

کیوں ہے ہم سے خدا خفا مت پوچھ
ظلم اتنا ہوا روا، مت پوچھ

راہزن کر لیے شریکِ سفر
کیوں لٹا اپنا قافلہ مت پوچھ

مطلع میں بہتری کی گنجائش ہے -چونکہ پہلے مصرع میں خدا اور ہماری بات ہے لہٰذا دوسرا مصرع متقاضی ہے کہ ظالم کی تخصیص ہونی چاہیے، اس کے بغیر شعر ادھورا ادھورا لگتا ہے - پھر مطلع کے پہلے مصرع میں "ہے ہم "سے جو لفظی تنا فر پیدا ہو رہا ہے آرام سے دور ہو سکتا ہے :

"کیوں خدا ہم سے ہے خفا مت پوچھ"
اس کے علاوہ یہی کہوں گا کہ پہلے دو اشعار میں ردیف کی معنویت ،اگرچہ ناپید نہیں ، خاصی کم ہے وہ اس طرح کہ آپ ایک طرف تو کہہ رہے ہیں "مت پوچھ "پھر وجہ بھی بتا رہے ہیں -


منزلِ عشق کا ہے قصد تو پھر
پست ہمت سے راستہ مت پوچھ

رحمتِ حق سے آس ہے تابشؔ
ورنہ عصیاں کی انتہا مت پوچھ

بہت عمدہ-
 
السلام علیکم تابش بھائی !
اچھی غزل ہے -نقد کے لحاظ سے یہی کہوں گا :

کیوں ہے ہم سے خدا خفا مت پوچھ
ظلم اتنا ہوا روا، مت پوچھ

راہزن کر لیے شریکِ سفر
کیوں لٹا اپنا قافلہ مت پوچھ

مطلع میں بہتری کی گنجائش ہے -چونکہ پہلے مصرع میں خدا اور ہماری بات ہے لہٰذا دوسرا مصرع متقاضی ہے کہ ظالم کی تخصیص ہونی چاہیے، اس کے بغیر شعر ادھورا ادھورا لگتا ہے - پھر مطلع کے پہلے مصرع میں "ہے ہم "سے جو لفظی تنا فر پیدا ہو رہا ہے آرام سے دور ہو سکتا ہے :

"کیوں خدا ہم سے ہے خفا مت پوچھ"
اس کے علاوہ یہی کہوں گا کہ پہلے دو اشعار میں ردیف کی معنویت ،اگرچہ ناپید نہیں ، خاصی کم ہے وہ اس طرح کہ آپ ایک طرف تو کہہ رہے ہیں "مت پوچھ "پھر وجہ بھی بتا رہے ہیں -






بہت عمدہ-
و علیکم السلام۔
جزاک اللہ خیر یاسر بھائی۔
درست توجہات ہیں۔
آج کل دفتر کی مصروفیات نے تخیل کو باندھ کر رکھا ہوا ہے، اور بہتری کے لیے سوچنے کا وقت کم مل رہا ہے۔ اسی لیے یہاں پیش کر دیتا ہوں کہ آراء آ جائیں گی، تو وقت ملنے پر نظر ثانی میں آسانی رہے گی۔ :)
 
کیوں ہے ہم سے خدا خفا مت پوچھ
ظلم اتنا ہوا روا، مت پوچھ
پہلے مصرع کے لیے آپ کا مشورہ قبول۔
ظلم روا ہونے سے مراد عمومی طور پر معاشرے میں بڑھا ظلم و ستم ہے۔ اور شعر میں یہی کہا ہے کہ
معاشرے میں ظلم و ستم روا ہونے کے سبب اللہ تعالیٰ ہم سے خفا ہے۔
راہزن کر لیے شریکِ سفر
کیوں لٹا اپنا قافلہ مت پوچھ
غزل میں مت پوچھ ہر دو معنوں میں استعمال ہوا ہے۔
زیادتی کے اظہار کے لیے۔
بات کے بالکل عیاں ہونے کے اظہار کے لیے
دوسرے شعر میں اس کا مطلب یہی ہے کہ خود ہی راہزنوں کو ساتھ ملا کر قافلہ لٹنے کا سبب مت پوچھو۔
 

یاسر شاہ

محفلین
ظلم روا ہونے سے مراد عمومی طور پر معاشرے میں بڑھا ظلم و ستم ہے۔ اور شعر میں یہی کہا ہے کہ
معاشرے میں ظلم و ستم روا ہونے کے سبب اللہ تعالیٰ ہم سے خفا ہے۔
تابش بھائی آپ کے اس شعر کی مراد میں سمجھ گیا تھا لیکن اس طرح سمجھا تھا کہ یہ شعر تابش کا ہے سو مراد یہی ہوگی -اگر کوئی اور پیش کرتا تو کوئی اور مراد بھی اس شعر سے اخذہو سکتی ہے کہ خدا چونکہ ہم سے خفا ہے چنانچہ ہم پر ................ -اس لئے کہا کہ بات واضح ہو -
غزل میں مت پوچھ ہر دو معنوں میں استعمال ہوا ہے۔
زیادتی کے اظہار کے لیے۔
بات کے بالکل عیاں ہونے کے اظہار کے لیے

جن دو اشعار کے حوالے سے ردیف کی کم معنویت کی بات کی تھی ،ان میں صرف اس مصرع میں ردیف میں زیادتی کا بھی مفہوم پوشیدہ ہے دیگر میں نہیں ملتا :ظلم اتنا ہوا روا، مت پوچھ-

دوسرے شعر میں اس کا مطلب یہی ہے کہ خود ہی راہزنوں کو ساتھ ملا کر قافلہ لٹنے کا سبب مت پوچھو۔
یہ معنی ذرا بتکلّف نکلتا ہے -
 
تابش بھائی آپ کے اس شعر کی مراد میں سمجھ گیا تھا لیکن اس طرح سمجھا تھا کہ یہ شعر تابش کا ہے سو مراد یہی ہوگی -اگر کوئی اور پیش کرتا تو کوئی اور مراد بھی اس شعر سے اخذہو سکتی ہے کہ خدا چونکہ ہم سے خفا ہے چنانچہ ہم پر ................ -اس لئے کہا کہ بات واضح ہو -


جن دو اشعار کے حوالے سے ردیف کی کم معنویت کی بات کی تھی ،ان میں صرف اس مصرع میں ردیف میں زیادتی کا بھی مفہوم پوشیدہ ہے دیگر میں نہیں ملتا :ظلم اتنا ہوا روا، مت پوچھ-


یہ معنی ذرا بتکلّف نکلتا ہے -
تسلیم۔ :)
 
Top