عابد علی خاکسار
محفلین
محترم استاد الف عین صاحب
محترم ریحان قریشی صاحب
محترم عظیم صاحب
محترم عاطف ملک صاحب
فعولن مفاعیلن فعولن مفاعیلن
نگاہوں میری اب سماں موت کا ٹھہرا
مری جان کا دشمن مرا رہنما ٹھہرا
تمازت سے سورج کی جلی ہے جہاں دنیا
وہیں دھوپ میں جا کے مرا قافلہ ٹھہرا
نہ تھا علم جس کو رخ کدھر ہے ہواوں کا
وہی بے خبر آ کے مرا ناخدا ٹھہرا
بہت تھک گیا میں چلتے چلتے مگر ہائے
وہی دوریاں ان سے وہی فاصلہ ٹھہرا
جو الزام دیتا تھا وہ سارے زمانے کو
وہ تو آپ ہی مجرم اسی جرم کا ٹھہرا
جسے دیکھ کر رستے میں روتا رہا اکثر
مری جیت کی پہچاں وہی آبلہ ٹھہرا
میں سچ بولتا تھا سامنے اس لیے شائد
نہ کوئ یہاں انساں مرا آشنا ٹھہرا
بڑی حسرتیں تھیں دل میں عابد ابھی لیکن
بڑا بے وفا یہ وقت بھی شام کا ٹھہرا
محترم ریحان قریشی صاحب
محترم عظیم صاحب
محترم عاطف ملک صاحب
فعولن مفاعیلن فعولن مفاعیلن
نگاہوں میری اب سماں موت کا ٹھہرا
مری جان کا دشمن مرا رہنما ٹھہرا
تمازت سے سورج کی جلی ہے جہاں دنیا
وہیں دھوپ میں جا کے مرا قافلہ ٹھہرا
نہ تھا علم جس کو رخ کدھر ہے ہواوں کا
وہی بے خبر آ کے مرا ناخدا ٹھہرا
بہت تھک گیا میں چلتے چلتے مگر ہائے
وہی دوریاں ان سے وہی فاصلہ ٹھہرا
جو الزام دیتا تھا وہ سارے زمانے کو
وہ تو آپ ہی مجرم اسی جرم کا ٹھہرا
جسے دیکھ کر رستے میں روتا رہا اکثر
مری جیت کی پہچاں وہی آبلہ ٹھہرا
میں سچ بولتا تھا سامنے اس لیے شائد
نہ کوئ یہاں انساں مرا آشنا ٹھہرا
بڑی حسرتیں تھیں دل میں عابد ابھی لیکن
بڑا بے وفا یہ وقت بھی شام کا ٹھہرا