غزل کی نئی زمین پیش خدمت ہے "کب سر آئے گا جدائی کا فسانہ جانا"

غزل​
کب سر آئے گا جدائی کا فسانہ جانا
جب سر آجائے فسانہ تو جگانا جانا

دل اگر خانہ مہماں تھا بر لگتا کیوں
مجھکو بے وقت تری یاد کا آنا جانا

ہائے وہ دن جو گزارے ہین تری فرقت میں
بعد پیوند مجھے یاد دلانا جانا

نہ ملے گا کوئی پھر عاشق احمق مجھسا
میرے الفاظ قلم بند کرانا جانا

حجاز ہم بھی ترے بن سنبھل کے دیکھیں تو
ایک دن چھوڑ کے تنہا ہمیں جانا جانا
 
حجاز مقطع بے وزن ہوا جاتا ہے
باقی غزل تو کمال ہے میاں۔
بات در اصل یہ ہے کہ شعر میں فی البدیہ کہتا ہوں، اور عروض سے کسی قسم کی شد بد نہیں ہے اور یہ غزل بھی نظر ثانی کئے بنا پیش کردی تا کہ اساتذہ اس پر نظر ثانی کریں۔۔۔ آپ کی نظر میں اگر کوئی اصلاح ہو تو فرما دیجے
 
جناب آپ بھی ھمارے ہی بھائی ہیں اس معاملے میں عروض سے میری بھی کوئی سلام دعا نہیں ہے۔ کبھی رستے میں مل جائیں تو وہ اپنے رستے اور ہم اپنے۔ :)

ہم بھی دیکھیں گے سنبھل کر کبھی بن تیرے حجاز
ایک دن چھوڑ کے تنہا ہمیں جانا جانا

ویسے الفاظ ’سنبھل‘ کے علاوہ بھی استعمال ہوسکتے ہیں

اناڑی پن میں اگر غلط کہ دیا یا کردیا ہو تو اساتذہ سے معافی اور اصلاح کا طالب ہوں۔
 

الف عین

لائبریرین
کاپی کر لی ہے۔ فی الحال دو باتیں۔
1۔ عنوان’غزل کی نئی زمین پیش خدمت ہے‘ سے مراد؟
2۔ ردیف ہی سمجھ میں نہیں آئی، کیا یہ ’جاناںُ ہے فراز کی مشہور غزل کی زمین؟
 
استاد محترم یہ جاناں ہی ہے انھوں نے جانا لکھ دیا ہے.

شکریہ آپنے اور وارث بھائی نے میرے مراسلے پے ہری جھنڈی دکھا کر مطمئن کردیا
 

الف عین

لائبریرین
ردیف جاناں ہے یا جانا؟ زیادہ تر ’جاناں‘ کا محل ہے، اس لئے جاناں کر کے دیکھ رہا ہوں
کب سر آئے گا جدائی کا فسانہ جاناں
جب سر آجائے فسانہ تو جگانا جاناں
//سر آنا؟

دل اگر خانہ مہماں تھا بر لگتا کیوں
مجھکو بے وقت تری یاد کا آنا جانا
//یہاں ردیف میں محض ’جانا‘ درست لگتا ہے۔

ہائے وہ دن جو گزارے ہین تری فرقت میں
بعد پیوند مجھے یاد دلانا جانا
//پیوند سے مراد؟ شعر واضح نہیں

نہ ملے گا کوئی پھر عاشق احمق مجھسا
میرے الفاظ قلم بند کرانا جانا
//دونوں مصرعوں میں تعلق؟

حجاز ہم بھی ترے بن سنبھل کے دیکھیں تو
ایک دن چھوڑ کے تنہا ہمیں جانا جاناں
//تخلص نہیں آتا وزن میں، اس کو یوں کر دو
ہم ترے بن بھی سنبھل کر کبھی دیکھیں تو حجاز
ایک دن چھوڑ کے تنہا ہمیں جانا جاناں
 
ردیف جاناں ہے یا جانا؟ زیادہ تر ’جاناں‘ کا محل ہے، اس لئے جاناں کر کے دیکھ رہا ہوں
کب سر آئے گا جدائی کا فسانہ جاناں
جب سر آجائے فسانہ تو جگانا جاناں
//سر آنا؟
فارسی محاورہ "سر آمدن" بمعنی "اختتام پر آنا"۔۔۔۔۔ استعمال غالب کی طرح کا ہے "انتظار کشیدن" کو حضرت غالب نے "انتظار کھینچنا" کیا ہے۔​

دل اگر خانہ مہماں تھا بر لگتا کیوں
مجھکو بے وقت تری یاد کا آنا جانا
//یہاں ردیف میں محض ’جانا‘ درست لگتا ہے۔

ہائے وہ دن جو گزارے ہین تری فرقت میں
بعد پیوند مجھے یاد دلانا جانا
//پیوند سے مراد؟ شعر واضح نہیں
وصال۔۔۔ "پیوستن" مصدر ہے۔

نہ ملے گا کوئی پھر عاشق احمق مجھسا
میرے الفاظ قلم بند کرانا جانا
//دونوں مصرعوں میں تعلق؟
مصرع یوں ہے "نہ ملے گا کوئی پھر عاشق احمق مجھسا" یعنی دوسرے مصرع میں اسی پہلے مصرع کا قلمبند کرانے کی تاکید ہے۔

حجاز ہم بھی ترے بن سنبھل کے دیکھیں تو
ایک دن چھوڑ کے تنہا ہمیں جانا جاناں
//تخلص نہیں آتا وزن میں، اس کو یوں کر دو
ہم ترے بن بھی سنبھل کر کبھی دیکھیں تو حجاز
ایک دن چھوڑ کے تنہا ہمیں جانا جاناں
مابقی جیسا آپ بہتر سمجھیں
شکریہ
 

الف عین

لائبریرین
عزیزم، اپنی فارسی دانی کا رعب جمانا چاہتے ہو تو اور بات ہے، ورنہ یہی بات یوں کہی جا سکتی تھی۔
ختم کب ہو گا جدائی کا فسانہ جاناں
ختم ہو جائے فسانہ تو جگانا جاناں
اسی طرح
وصل کے بعد مجھے یاد دلانا جاناں
پیوند کی فارسی ترکیب کی کیا ضرورت ہے جب کہ اردو میں معنی مختلف ہیں!!
قلم بند والی بات قابل قبول ہے۔
 
عزیزم، اپنی فارسی دانی کا رعب جمانا چاہتے ہو تو اور بات ہے، ورنہ یہی بات یوں کہی جا سکتی تھی۔
ختم کب ہو گا جدائی کا فسانہ جاناں
ختم ہو جائے فسانہ تو جگانا جاناں
اسی طرح
وصل کے بعد مجھے یاد دلانا جاناں
پیوند کی فارسی ترکیب کی کیا ضرورت ہے جب کہ اردو میں معنی مختلف ہیں!!
قلم بند والی بات قابل قبول ہے۔
ہماری کیا مجال کہ "خدایان سخن" کے سامنے فارسی کیا اردو کا بھی رعب جما سکیں۔ ویسے تو ہمیں اردو فارسی سے بھی زیادہ نہیں آتی ہے۔۔۔ لیکن آپ کا گفتہ حرف آخر اور حجت ہے ہماری خاطر، جس طرح حضور نے اصلاح کی ہے غزل بس اسی طرح ملے گی،
 
Top