غزل : گو کہ درویش ذرا خاک بسر ہے سائیں - فرحان محمد خان


غزل
عرفان صدیقی کی نذر

گو کہ درویش ذرا خاک بسر ہے سائیں
پھر بھی دنیا کے لیے مثلِ شجر ہے سائیں

ماسوا تیرے کسے اس کی خبر ہے سائیں
وہ جو پوشیده پسِ دیدۂ تر ہے سائیں

بزمِ کونین کا اب رنگ دگر ہے سائیں
سنتے آئے تھے کہ آہوں میں اثر ہے سائیں

بس بزرگوں کی دعاؤں کا ثمر ہے سائیں
ورنہ کاہے کا مرے پاس ہنر ہے سائیں

چل دیے ہیں نہ کوئی مال نہ زر ہے سائیں
ہاں فقط ماں کی دعا رختِ سفر ہے سائیں

شاعری ہے کہ مرا خونِ جگر ہے سائیں
تُو تو واقف ہے تجھے اس کی خبر ہے سائیں

کیسے ڈٹ جاؤں بھلا ظلمتِ شب کے آگے
میرے ماں باپ سلامت! مرا گھر ہے سائیں

دامِ تدبیر میں آئی نہ کبھی آئے گی
ہائے تقدیر بڑی شعبدہ گر ہے سائیں

مجھ کو یہ ڈر ہے کہ شاید مجھے پاگل کر دے
یہ جو مجھ میں مرے اندر کا بھنور ہے سائیں

تیرگی چار طرف رقصِ کناں ہے تو کیا
میں دیا ہوں مجھے امیدِ سحر ہے سائیں

اسی دنیا میں رہے عشق کیا ،شعر کہے
کیسے کہہ دیں یہ جہاں راہ گزر ہے سائیں

دفن ہیں حضرتِ ساغر سے قلندر اس میں
شہرِ لاہور مرا خواب نگر ہے سائیں

دل دھڑکتا ہے جو اشعار کو پڑھتے پڑھتے
شعر کچھ خاص نہیں حسنِ نظر ہے سائیں
فرحان محمد خان
 
بہت خوب! ماشاءاللہ ۔۔۔ بہت عمدہ لکھا ہے۔
مجھے بس ایک جگہ محض اپنی کم علمی کی وجہ سے کچھ تردد ہے، خاک بسر ’’ہونا‘‘ کیا محاورتاً درست ہوگا؟

دعاگو،
راحلؔ
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
بہت خوب! ماشاءاللہ ۔۔۔ بہت عمدہ لکھا ہے۔
مجھے بس ایک جگہ محض اپنی کم علمی کی وجہ سے کچھ تردد ہے، خاک بسر ’’ہونا‘‘ کیا محاورتاً درست ہوگا؟

دعاگو،
راحلؔ
راحل بھائی ، اصل روز مرہ تو خاک بسر ( بمعنی پریشان حال ، خستہ حال) ہے ۔ اس خاک بسر کے ساتھ کوئی بھی مناسب فعل استعمال کیا جاسکتا ہے ۔ مثلاً خاک بسر پھرنا ، آنا ، جانا ، ہونا وغیرہ ۔
گو کہ درویش ذرا خاک بسر ہے سائیں
اس مصرع میں اصل مسئلہ لفظ" ذرا" کے استعمال کا ہے ۔ کوئی شخص خاک بسر تو ہوسکتا ہے لیکن ذرا خاک بسر ہونا ٹھیک نہیں ہے ۔ یعنی خاک بسر ہونا کوئی ایسی صفت نہیں کہ جس سے پہلے تھوڑا ، ذرا ، بہت یا کم کا لفظ استعمال کیا جاسکے۔
 
راحل بھائی ، اصل روز مرہ تو خاک بسر ( بمعنی پریشان حال ، خستہ حال) ہے ۔ اس خاک بسر کے ساتھ کوئی بھی مناسب فعل استعمال کیا جاسکتا ہے ۔ مثلاً خاک بسر پھرنا ، آنا ، جانا ، ہونا وغیرہ ۔
گو کہ درویش ذرا خاک بسر ہے سائیں
اس مصرع میں اصل مسئلہ لفظ" ذرا" کے استعمال کا ہے ۔ کوئی شخص خاک بسر تو ہوسکتا ہے لیکن ذرا خاک بسر ہونا ٹھیک نہیں ہے ۔ یعنی خاک بسر ہونا کوئی ایسی صفت نہیں کہ جس سے پہلے تھوڑا ، ذرا ، بہت یا کم کا لفظ استعمال کیا جاسکے۔
اوہ، تو غالبا یہ اصلا خاک بہ سر ہوگا؟
 
غزل
عرفان صدیقی کی نذر
گو کہ درویش ذرا خاک بسر ہے سائیں
پھر بھی دنیا کے لیے مثلِ شجر ہے سائیں

ماسوا تیرے کسے اس کی خبر ہے سائیں
وہ جو پوشیده پسِ دیدۂ تر ہے سائیں

بزمِ کونین کا اب رنگ دگر ہے سائیں
سنتے آئے تھے کہ آہوں میں اثر ہے سائیں

بس بزرگوں کی دعاؤں کا ثمر ہے سائیں
ورنہ کاہے کا مرے پاس ہنر ہے سائیں

چل دیے ہیں نہ کوئی مال نہ زر ہے سائیں
ہاں فقط ماں کی دعا رختِ سفر ہے سائیں

شاعری ہے کہ مرا خونِ جگر ہے سائیں
تُو تو واقف ہے تجھے اس کی خبر ہے سائیں

کیسے ڈٹ جاؤں بھلا ظلمتِ شب کے آگے
میرے ماں باپ سلامت! مرا گھر ہے سائیں

دامِ تدبیر میں آئی نہ کبھی آئے گی
ہائے تقدیر بڑی شعبدہ گر ہے سائیں

مجھ کو یہ ڈر ہے کہ شاید مجھے پاگل کر دے
یہ جو مجھ میں مرے اندر کا بھنور ہے سائیں

تیرگی چار طرف رقصِ کناں ہے تو کیا
میں دیا ہوں مجھے امیدِ سحر ہے سائیں

اسی دنیا میں رہے عشق کیا ،شعر کہے
کیسے کہہ دیں یہ جہاں راہ گزر ہے سائیں

دفن ہیں حضرتِ ساغر سے قلندر اس میں
شہرِ لاہور مرا خواب نگر ہے سائیں

دل دھڑکتا ہے جو اشعار کو پڑھتے پڑھتے
شعر کچھ خاص نہیں حسنِ نظر ہے سائیں
فرحان محمد خان

 
راحل بھائی ، اصل روز مرہ تو خاک بسر ( بمعنی پریشان حال ، خستہ حال) ہے ۔ اس خاک بسر کے ساتھ کوئی بھی مناسب فعل استعمال کیا جاسکتا ہے ۔ مثلاً خاک بسر پھرنا ، آنا ، جانا ، ہونا وغیرہ ۔
گو کہ درویش ذرا خاک بسر ہے سائیں
اس مصرع میں اصل مسئلہ لفظ" ذرا" کے استعمال کا ہے ۔ کوئی شخص خاک بسر تو ہوسکتا ہے لیکن ذرا خاک بسر ہونا ٹھیک نہیں ہے ۔ یعنی خاک بسر ہونا کوئی ایسی صفت نہیں کہ جس سے پہلے تھوڑا ، ذرا ، بہت یا کم کا لفظ استعمال کیا جاسکے۔
ظہیر بھائی سلامت رہیں آپ سے ہميشہ کچھ نہ کچھ سیکھنے کو ملتا ہے ❤
 
دفن ہیں حضرتِ ساغر سے قلندر اس میں
شہرِ لاہور مرا خواب نگر ہے سائیں
میانی صاحب کے شہرِ خموشاں میں ساغر صدیقی صاحب کے ہاں مبارکبادکے لیے آنیوالے ہم شہرلوگوں کا تانتا بندھاہوگا کہ گلزارِ ہستی سے جنابِ فرحان محمد خان صاحب(خدا آپ کو عمرِ دراز عطافرمائے) کی طرف سے یہ گلِ سدابہار بطور ہدیہ پیش کیا گیا ہے،واہ واہ فرحان صاحب شاباش!
غزل کا ہر شعر لاجواب ،بے نظیر ، بے مثال اور ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔لازوال۔
خدا آپ کے فکر وخیال کو اور بھی رونق ، رنگ و نورعطا فرمائے،آمین!
 
Top