غزل/ گھومتا پھرتا ہے میرے ذہن میں وہ نام کیوں

عظیم

محفلین



گھومتا پھرتا ہے میرے ذہن میں وہ نام کیوں
مجھ کو دنیا میں نہیں ہے اور کوئی کام کیوں

جب کہ ہے اس کی نظر ہی مست ہونے کا سبب
آج تک پھرتا رہا ہے گردشوں میں جام کیوں

سب سلامت ہے تو پھر محرومیوں کا کیا گلہ
بے فضول اپنا کروں برباد میں آرام کیوں

دل میں اس کی یاد ہے لب پر ہے اس کا نام جب
خاص ہوں خود کو کہیں کہتا پھروں میں عام کیوں

میرے دل پر میری جاں پر اس کا ہی ہے اختیار
اپنے سر لیتا ہوں میں پھر عشق کا الزام کیوں

چھین لیتی ہے بس اک لمحے میں بندے کا شعور
وہ نظر مجرم ہے جب ہو آدمی بدنام کیوں

مجھ غریب انسان کی خاطر ہے سب اس کا خیال
اس غنیمت سے بھی بڑھ کر ہے کوئی اکرام؟ کیوں؟

دل کی قیمت آج بھی ہے ایک میٹھا بول بس
آسماں پر ہیں کئی چیزوں کے لیکن دام کیوں







 
Top