نظر لکھنوی غزل: ہر چند زباں سے کچھ نہ کہیں، دنیا کو خبر ہو جاتی ہے ٭ نظرؔ لکھنوی

ہر چند زباں سے کچھ نہ کہیں، دنیا کو خبر ہو جاتی ہے
رازِ غمِ دل کے افشا کو یہ آنکھ جو تر ہو جاتی ہے

ہے فطرتِ آدم خیر طلب، ہے خلقتِ انساں حُسن طلب
حیراں ہوں میں کیسے طبعِ بشر آمادۂ شر ہو جاتی ہے

اے غرقِ ستم! اے مستِ جفا! تو نے بھی سنا ہے یہ کہ نہیں
نکلی جو شکستہ دل سے دعا پابندِ اثر ہو جاتی ہے

ساحل کی طلب میں جو نکلی، دیکھا سرِ ساحل آ پہنچی
ساحل سے گریزاں جو بھی ہوئی، وہ موج بھنور ہو جاتی ہے

قسمت کو جگاتے ہیں اس سے، آنکھوں سے لگاتے ہیں اس کو
خاکِ درِ جاناں کیا کہیے، اکسیر اثر ہو جاتی ہے

وہ خواب کے عالم میں گاہے جب مجھ کو دکھائی دیتے ہیں
تسکینِ دل و جاں ہو کہ نہ ہو تسکینِ نظرؔ ہو جاتی ہے

٭٭٭
محمد عبد الحمید صدیقی نظرؔ لکھنوی
 
آخری تدوین:

ام اویس

محفلین
ساحل کی طلب میں جو نکلی ، دیکھا سر ساحل آپہنچی
ساحل سے گریزاں جو بھی ہوئی وہ موج بھنور ہوجاتی ہے

عمدہ ۔۔۔
 
ساحل کی طلب میں جو نکلی ، دیکھا سر ساحل آپہنچی
ساحل سے گریزاں جو بھی ہوئی وہ موج بھنور ہوجاتی ہے

عمدہ ۔۔۔


بہت عمدہ۔ بہت خوبصورت کلام۔ بہت سی داد

بہت اعلی ،عمدہ اور لاجواب۔زبردست شراکت

واہ ۔ عمدہ کلام۔۔۔
اللہ عزوجل نظر صاحب کے درجات بلند فرمائے۔ آمین۔۔۔

بہت خوبصورت کلام۔ زبردست

اے غرقِ ستم! اے مستِ جفا! تو نے بھی سنا ہے یہ کہ نہیں
نکلی جو شکستہ دل سے دعا پابندِ اثر ہو جاتی ہے
یہ شعر کمال است بہت ہی خوب

بہت بہت خوب تا بش بھائی ، ۔

بہت شکریہ پسند فرمانے کا۔ :)
 
Top