غزل : ہم لوگ کبھی نوکِ سناں تک نہیں آتے - فرحان محمد خان

غزل
ہم لوگ کبھی نوکِ سناں تک نہیں آتے
کچھ حرفِ صداقت جو زباں تک نہیں آتے

دنیا کو کبھی دیکھنے آتے دمِ فرصت
کیا خوف ہے خالق جو یہاں تک نہیں آتے

افسوس صد افسوس مرے دور کے حاتمؔ
غلطی سے بھی مفلس کے مکاں تک نہیں آتے

افلاس کی بستی میں فقط بھوک ملے گی
تہذیب کے آداب یہاں تک نہیں آتے

آنکھوں سے عیاں تھا کہ ہوس کار نہیں تھی
ہو بھوک تو انسان کہاں تک نہیں آتے

تم خاک سمجھ سکتے ہوں مزدور کی حالت
کپڑوں پہ پسینے کے نشاں تک نہیں آتے

جذباتِ محبت بھی بہت خوب ہیں لیکن
فاقہ کشی میں وہم و گماں تک نہیں آتے
فرحان محمد خان
 
آخری تدوین:

فاخر رضا

محفلین
سلام. بہت اچھی مسلسل غزل ہے
مطلع بہترین ہے. اگر اس کے مصرعوں کو اوپر نیچے کردیا جائے تو کیا زیادہ اچھا نہیں لگے گا
 
Top