پیاسا صحرا
محفلین
غزل
ہم نے سب شعر میں سنوارے تھے
ہم سے جتنے سخن تمہارے تھے
رنگ و خوشبو کے، حسن و خوبی کے
تم سے تھے جتنے استعارے تھے
تیرے قول و قرار سے پہلے
اپنے کچھ اور بھی سہارے تھے
جب وہ لعل و گہر حساب کیے
جو ترے غم پہ دل نے وارے تھے
میرے دامن میں آ گرے سارے
جتنے طشتِ فلک میں تارے تھے
عمرِ جاوید کی دعا کرتے
فیض اتنے وہ کب ہمارے تھے
فیض احمد فیض
ہم نے سب شعر میں سنوارے تھے
ہم سے جتنے سخن تمہارے تھے
رنگ و خوشبو کے، حسن و خوبی کے
تم سے تھے جتنے استعارے تھے
تیرے قول و قرار سے پہلے
اپنے کچھ اور بھی سہارے تھے
جب وہ لعل و گہر حساب کیے
جو ترے غم پہ دل نے وارے تھے
میرے دامن میں آ گرے سارے
جتنے طشتِ فلک میں تارے تھے
عمرِ جاوید کی دعا کرتے
فیض اتنے وہ کب ہمارے تھے
فیض احمد فیض