غزل - ہوائیں چلنے لگی ہیں سمندروں کی طرف

شاہین فصیح ربانی

غزل

ترا گمان کہ بڑھتا ہے پستیوں کی طرف
مرے یقین کی نظریں ہیں رفعتوں کی طرف

میں اپنی ذات کی تنہائیوں میں شاداں تھا
وہ مجھ کو لے گیا دنیا کی محفلوں کی طرف

سب اپنے اپنے مسائل کی بات کرتے ہیں
کسی کا دھیان تو ہو میری مشکلوں کی طرف

یہ موسموں کا تغیر بھی دھیان میں رکھنا
ہوائیں چلنے لگی ہیں سمندروں کی طرف

ہمارا عہد مزین ہے ایسے لوگوں سے
اذاں کے ساتھ جو آجائیں مسجدوں کی طرف

نکل گئے تھے دمِ صبح، رزق کی خاطر
پلٹ رہے ہیں سرِشام گھونسلوں کی طرف

جنہیں عزیز ہے افلاس میں بھی خودداری
نظر اُٹھا کے نہ دیکھیں گے دوسروں کی طرف

چُرا رہے تھے مسائل سے اپنی آنکھیں ہم
سو لے گئے ہمیں حالات الجھنوں کی طرف

نظر شکست کے آثار آ رہے ہیں فصیح
کہ دوستوں کا جھکاؤ ہے دشمنوں کی طرف
 
Top