غزل: ہوا ختم ہر جہاں سلسلہ۔۔۔

عزیزان من، آداب!

بہت دن سے محفل میں کچھ شریک کرنا چاہ رہا تھا مگر غم روزگار نے ایسا جکڑا ہوا ہے کہ دماغ کسی اور طرف جاتا ہی نہیں ۔۔۔ سو ایک پرانی غزل ہی پیش خدمت ہے ۔۔۔ امید ہے احباب اپنی آرا اور تبصروں سے ضرور آگاہ کریں گے۔

دعاگو،
راحلؔ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہوا ختم ہر جہاں سلسلہ تمہیں یاد ہوکہ نہ یاد ہو
وہ مقام حزن و ملال کا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو

یہ درست ہے رہِ شوق میں، میں سبھی سے پیچھے رہا، مگر
مرے سر پہ سب کا ہی بار تھا، تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو

وہ پھر اس کے بعد نہ اٹھ سکا، وہ تمہارے در پہ ہی مر گیا!
جسے تم نے رسوا بہت کیا، تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو

جسے دیکھ تم یوں بنا رکے ہی چرا کے نظریں تھے چل دیے
وہ تمہارے غم کا مریض تھا، تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو!

وہ جو تم نہ سمجھے تھے بیشتر، جو کہا تھا نظروں سے پیشتر
وہ زباں سے بھی تھا تمہیں کہا، تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو!

وہ جو مشترک بُنا خواب تھا، نئی زندگی کا وہ باب تھا!
وہ ہے آج تک بھی کُھلا ہوا، تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو

کبھی تم بھی جس پہ ہوئے فدا، وہی نیک نامِ رہِ وفا
وہ تمہار راحلِؔ گمشدہ، تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو!

۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
Top