جمال احسانی غزل: ہونے کی گواہی کے لئے خاک بہت ہے

ہونے کی گواہی کے لئے خاک بہت ہے
یا کچھ بھی نہیں ہونے کا ادراک بہت ہے

اک بھولی ہوئی بات ہے اِک ٹوٹا ہوا خواب
ہم اہلِ محبت کو یہ اِملاک بہت ہے

کچھ دربدری راس بہت آئی ہے مجھ کو
کچھ خانہ خرابوں میں مِری دھاک بہت ہے

پرواز کو پر کھول نہیں پاتا ہوں اپنے
اور دیکھنے میں وسعت افلاک بہت ہے

کیا اس سے ملاقات کا اِمکاں‌ بھی نہیں اب
کیوں ان دنوں میلی تری پوشاک بہت ہے

آنکھوں میں ہیں محفوظ ترے عشق کے لمحات
دریا کو خیالِ خس و خاشاک بہت ہے

نادم ہے بہت تو بھی جمالؔ اپنے کئے پر
اور دیکھ لے وہ آنکھ بھی نمناک بہت ہے

جمال احسانی
 

صائمہ شاہ

محفلین
یا کچھ بھی نہ ہونے کا ادراک بہت ہے ۔۔۔
بہت خوبصورت غزل
ایک عرصہ ان اشعار کے سحر میں رہی ہوں اور آج بھی وہی لطف آیا جو عرصہ پہلے ملا ۔
 
Top