غزل - ہو گئی ہیں لہو لہو آنکھیں

شاہین فصیح ربانی

غزل

پھیر لیتا ہے مجھ سے تو آنکھیں
چھوڑ دیتی ہیں آرزو آنکھیں

کوئی دیوانہ اس کو سمجھے گا
کر رہی ہیں جو گفتگو آنکھیں

پا لیا پھر بھی مدعا میں نے
چپ رہیں میرے روبرو آنکھیں

آئنہ جھوٹ کس طرح بولے
آئی ہیں اس کے روبرو آنکھیں

میں کہاں ان سے بچ کے جاؤں گا
رقص کرتی ہیں چار سو آنکھیں

جو مجھے مست الست کر دے گا
کب پلائیں گی وہ سبو آنکھیں

کون تصویر ہونے والا ہے
ہیں ابھی محوِ جستجو آنکھیں

کرچیاں ہو گئے ہیں خواب فصیح
ہو گئی ہیں لہو لہو آنکھیں
 

الف عین

لائبریرین
اچگی غزل ہے فصیح۔ پسند آئی۔ ’سمت‘ کے لئے بھی کلام بھیجیں۔ محمود مغل متوجہ ہوں۔ اب میرے لئے تو برقی کتاب کے لئے کلام بھیجنا کافی ہے۔
 
Top