غزل - ہے ابر کتنی دور، ہوا کتنی دور ہے - اسرار زیدی

غزل

ہے ابر کتنی دور، ہوا کتنی دور ہے
اب اس نگر سے رخشِ صدا کتنی دور ہے

اب رودِ نیل میں کفِ نمرود کے لئے
موسیٰ کہاں ہے اس کا عصا کتنی دور ہے

اب شہریار کتنے حصاروں میں بند ہے
اب وہ طلسمِ ہوشربا کتنی دور ہے

اب کس جگہ سے تختِ سلیماں کا گزر ہے
اب اس جگہ سے شہرِ صبا کتنی دور ہے

اب راہ کھو چکی ہے مسافت کی دھند میں
اے دشت تیرا آبلہ پا کتنی دور ہے

شہ رگ سے بھی قریب ہوں، اس نے خبر یہ دی
میں سوچتا رہا خدا کتنی دور ہے

اسرار زیدی​
 

نبیل

تکنیکی معاون
اسرار زیدی صاحب کا کلام دیکھ کر بہت خوشی ہوئی۔ وہ مجھے بہت عزیز رکھتے ہیں۔
 

نبیل

تکنیکی معاون
برادرم محمد وارث، میرے والد صاحب نے اسرار زیدی صاحب کے اعزاز میں منعقد ایک تقریب کے سلسلے میں ایک مضمون لکھا تھا۔ یہ مضمون مجھے اگر ملا تو میں اسے یہاں ضرور شئیر کروں گا۔ اسرار زیدی صاحب تقسیم ہند سے قبل ہی صحافت سے وابستہ تھے۔ وہ کئی دہائیوں تک اخبار جہاں کے لیے حلقہ ارباب ذوق کی سرگرمیوں پر کالم لکھتے رہے ہیں۔ وہ پاک ٹی ہاؤس کی رونق ہوا کرتے تھے۔ اب ان کی عمر قریباً نوے سال ہے اور وہ کافی ضعیف ہو چکے ہیں۔ میں نے اپنی پوری زندگی میں اتنا مخلص، وضع دار اور محبت کرنے والا شخص نہیں دیکھا ہے۔ میں انہیں ماموں کہتا اور سمجھتا ہوں۔ اللہ تعالی انہیں اپنی حفاظت میں رکھے، آمین۔
 
بہت عمدہ غزل ہے

اب رودِ نیل میں کفِ نمرود کے لئے
موسیٰ کہاں ہے اس کا عصا کتنی دور ہے

اب راہ کھو چکی ہے مسافت کی دھند میں
اے دشت تیرا آبلہ پا کتنی دور ہے

شہ رگ سے بھی قریب ہوں، اس نے خبر یہ دی
میں سوچتا رہا خدا کتنی دور ہے
 
Top