محمداحمد
لائبریرین
غزل
ہے وہی مزاجِ صحرا، وہی ریت جل رہی ہے
نہ یہ جسم موم کا ہے، نہ یہ دھوپ ہی نئی ہے
وہ الگ ہی آسماں ہے، کوئی اور ہے زمیں بھی
جہاں فکر میں مری ماں، مری راہ دیکھتی ہے
یہ جو پیڑ جل رہا ہے، کڑی دھوپ میں مسلسل
یہی میرا استعارہ، یہی میری زندگی ہے
یہ جو پیاس کی ہے شدت، ہے یہی عطائے صحرا
جو پڑے گلے میں کانٹے، یہی فصلِ تشنگی ہے
وہ گھنیری پلکیں اب بھی، شب و روز بھیگتی ہیں
جہاں یاس جاگتی ہے، جہاں آس سو گئی ہے
جو چراغ بجھ گیا ہے، سرِ شام میرے گھر کا
اُسے کیا خبر ہے پوری مجھے رات کاٹنی ہے
شب و روز ہی پریشاں، ہے عبید آج انساں
یہ جو مرگ ہر نفس ہے، یہی مرگِ زندگی ہے
عبید الرحمٰن عبید