غزل : ہے کون دھنک کے رنگوں میں لپٹا ہوا محوِ خرام میاں

غز ل
از : محمد حفیظ الرحمٰن

ہے کون دھنک کے رنگوں میں لپٹا ہوا محوِ خرام میاں
گر دیکھ لے ہم کو ایک نظر بِک جایئں گےبے دام میاں

وہ وعدہ کر کے بھول گیا تم کب تک رستہ دیکھو گے
اب دِن تو سارا بِیت چکا اور ہونے آئی شام میاں

اب جاہ و حشم کی حسرت کیا اب نام و نمود کی خواہش کیا
جب ساری عمر گزاری ہے پھرتے پھرتے گمنام میاں

یوں رات کے سناٹے میں اگر جاگ اٹھا دل کا درد تو کیا
تم نامِ خدا کا ورد کرو آجائے گا آرام میاں

یہ ہجر کی رات یہ سناٹا، یہ بھیگی بھیگی چشمِ فلک
تارے بھی ہیں سارے مہربہ لب اور گم سم ماہِ تمام میاں

دونوں میں کوئی فرق نہیں، وہ قیس ہو یا فرہاد ہی ہو
دونوں کی ایک ہی قسمت تھی ، اور ایک ہوا انجام میاں

وہ نقشِ محبت مٹ بھی چکا، وہ شکل بھی دل سے محو ہوئی
اب اس کو ہم سے کیا مطلب، کیا اس سے ہم کو کام میاں

تم بھولے ہو تم ناداں ہو، تم دل کو کہاں پر کھو آئے
اتنا تو سوچ لیا ہوتا ہو جاؤ گے بدنام میاں
 
مدیر کی آخری تدوین:
بے ساختہ انشاء جی کی یہ غزل ذہن میں آ گئی
دیکھ ہمارے ماتھے پر یہ دشتِ طلب کی دھول میاں
ہم سے عجب ترا درد کا ناتا، دیکھ ہمیں مت بھول میاں

آہنگ لہجہ روانی موسیقیت سب ہی خوب ہیں
ماشااللہ بہت ہی خوبصورت غزل کہی آپ نے
بہت سی داد آپ کی نظر
اللہ کرے زور قلم زیادہ
 
جناب سید شہزاد ناصر صاحب۔ جناب داد کے لئے بےحد شکریہ۔ آپ نے اتنی زبردست حوصلہ افزائی فرمائی کہ میرا دل خوشی سے بھر گیا۔ جناب بڑی نوازش۔
 
Top