میر غزل-ہے یہ بازارِ جنوں ، منڈی ہے دیوانوں کی-میر تقی میر

غزل

ہے یہ بازارِ جنوں ، منڈی ہے دیوانوں کی
یاں دکانیں ہیں کئی چاک گریبانوں کی

کیونکر کہیئے کہ اثر گریہء مجنوں کو نہ تھا
گرد نمناک ہے اب تک بھی بیابانوں کی

یہ بگولہ تو نہیں دشتِ محبت میں سے
جمع ہو خاک اڑی کتنی پریشانوں کی

خانقہ کا تو نہ کر قصد ٹک اے خانہ خراب
یہی اک رہ گئی ہے بستی مسلمانوں کی

سیل اشکوں سے بہے ، صرصر آہوں سے اڑے
مجھ سے کیا کیا نہ خرابی ہوئی ویرانوں کی

دل و دیں کیسے کہ اس رہزنِ دلہا سے اب
یہ پڑی ہے کہ خدا خیر کرے جانوں کی

کتنے سوختہ دل ہم جمع ہیں اے غیرتِ شمع
کر قدم رنجہ کہ مجلس ہے یہ پروانوں کی

سرگزشتیں نہ مری سن کہ اچٹتی ہے نیند
خاصیت یہ ہے مری جان ان انسانوں کی

میکدے سے تو ابھی آیا ہے مسجد میں میر
ہو نہ لغزش کہیں مجلس ہے یہ بیگانوں کی

میر تقی میر​
 
Top