عرفان علوی
محفلین
احبابِ گرامی ، سلام عرض ہے !
ایک غزل پیشِ خدمت ہے . ملاحظہ فرمائیے اور اپنی رائے سے نوازیے .
یوں تو رگوں میں خون ہے، پانی نہیں کوئی
لیکن ہے اک جمود، روانی نہیں کوئی
خوش حال زندگی کی تمنا فضول ہے
زحمت ہمیں کبھی جو اٹھانی نہیں کوئی
ہیں زیرِ مشکلات زمانے میں اور لوگ
ہَم ہی کو جو ئے شیر بہانی نہیں کوئی
نکلا ہے کالی رات کی وحشت سے جوجھنے
جگنو كے اعتماد کا ثانی نہیں کوئی
اخلاق و ارتباط کہیں چھوڑ آئے ہَم
پُركھوں کی اپنے پاس نشانی نہیں کوئی
گندم كے ساتھ کھیت میں اگتا تھا پیار بھی
کل ہی کی ہے یہ بات، پرانی نہیں کوئی
انسان پی رہا ہے خود انسان کا لہو
ناداں، یہ ایک سچ ہے، کہانی نہیں کوئی
خوش ہیں جو واقعی وہ منائینگے شوق سے
ہَم کو تو اب كے عید منانی نہیں کوئی
عابدؔ مرے کلام پر اتنی نہ فکر کر
یہ لفظ وہ ہیں جن كے معانی نہیں کوئی
نیازمند ،
عرفان عابدؔ
ایک غزل پیشِ خدمت ہے . ملاحظہ فرمائیے اور اپنی رائے سے نوازیے .
یوں تو رگوں میں خون ہے، پانی نہیں کوئی
لیکن ہے اک جمود، روانی نہیں کوئی
خوش حال زندگی کی تمنا فضول ہے
زحمت ہمیں کبھی جو اٹھانی نہیں کوئی
ہیں زیرِ مشکلات زمانے میں اور لوگ
ہَم ہی کو جو ئے شیر بہانی نہیں کوئی
نکلا ہے کالی رات کی وحشت سے جوجھنے
جگنو كے اعتماد کا ثانی نہیں کوئی
اخلاق و ارتباط کہیں چھوڑ آئے ہَم
پُركھوں کی اپنے پاس نشانی نہیں کوئی
گندم كے ساتھ کھیت میں اگتا تھا پیار بھی
کل ہی کی ہے یہ بات، پرانی نہیں کوئی
انسان پی رہا ہے خود انسان کا لہو
ناداں، یہ ایک سچ ہے، کہانی نہیں کوئی
خوش ہیں جو واقعی وہ منائینگے شوق سے
ہَم کو تو اب كے عید منانی نہیں کوئی
عابدؔ مرے کلام پر اتنی نہ فکر کر
یہ لفظ وہ ہیں جن كے معانی نہیں کوئی
نیازمند ،
عرفان عابدؔ