غزل - یک رنگیِ حیات نے تڑپا دیا مجھے

غزل

یک رنگیِ حیات نے تڑپا دیا مجھے
غم کی سیاہ رات نے تڑپا دیا مجھے
یا دل کو زندگی کی تمنا نہیں رہی
یا خواہشِ ثبات نے تڑپا دیا مجھے
ہموار اس کی جیت کا رستہ کیا تھا آپ
پھر کیوں یہ اپنی مات نے تڑپا دیا مجھے
کتنی ہی آرزوؤں نے دل کو دیا قرار
کتنی ہی خواہشات نے تڑپا دیا مجھے
میں اس میں لمحہ لمحہ الجھتا چلا گیا
زنجیرِ حادثات نے تڑپا دیا مجھے
خاطر نہ کچھ لحاظ‘ مروت نہ کچھ خیال
تیری اس ایک بات نے تڑپا دیا مجھے
جس سے قرارِ جاں کی مجھے کچھ امید تھی
اس پھول جیسی ذات نے تڑپا دیا مجھے
میں تیری چاہتوں کی تمنا میں محو تھا
ہنس کر مری برات نے تڑپا دیا مجھے
زخم اس کی بے رخی کا ہرا تھا ابھی فصیحؔ
پھر اس کے التفات نے تڑپا دیا مجھے

شاہین فصیحؔ ربانی
[/size
 

زیف سید

محفلین
بہت خوب ربانی صاحب۔ خوب رواں دواں غزل کہی ہے۔ یہ اشعار خاص طور پر پسند آئے:

غزل


ہموار اس کی جیت کا رستہ کیا تھا آپ
پھر کیوں یہ اپنی مات نے تڑپا دیا مجھے

میں اس میں لمحہ لمحہ الجھتا چلا گیا
زنجیرِ حادثات نے تڑپا دیا مجھے



زخم اس کی بے رخی کا ہرا تھا ابھی فصیحؔ
پھر اس کے التفات نے تڑپا دیا مجھے

[/size
 
خاطر نہ کچھ لحاظ‘ مروت نہ کچھ خیال
تیری اس ایک بات نے تڑپا دیا مجھے
زخم اس کی بے رخی کا ہرا تھا ابھی فصیحؔ
پھر اس کے التفات نے تڑپا دیا مجھے
ان دو شعروں نے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔تڑپا دیا مجھے:)
 
Top