غزل -یہاں لوگ ہیں سیدھے سادے کئی

یہاں لوگ ہیں سیدھے سادے کئی
بدلتے ہیں دن میں لبادے کئی
جہاں تھے وہیں کے وہیں رہ گئے
کہ بن بن کے ٹوٹے ارادے کئی
نہ چلیے تو پھر کوئی رستہ نہیں
جو چل دیجیے تو ہیں جادے کئی
ملی شاہزادی نہ انصاف کی
بھٹکتے پھرے شاہزادے کئی
چلے شاہ اب اپنی اگلی بھی چال
کہ فرزیں بہت اور پیادے کئی
نہیں جانتے غم کا مطلب بھی جو
یہاں ایسے ہیں خانوادے کئی
سرِ بزم یہ آئنے نے کہا
مکمل ہیں اک دو اور آدھے کئی
نظر وہ نظر ہے، کسی دل میں جو
دئیے خواہشوں کے جلا دے کئی
کبھی ہو گا پورا کوئی تو فصیح
کیے اس نے ہم سے ہیں وعدے کئی
شاہین فصیح ربانی
 

عظیم

محفلین


ہنستے ہوں گے وہ بهی اس مجنون پر
ہم ہنسیں جیسے کسی ممنون پر

نکتہ کهینچیں نون کے اوپر سے ہم
جا لگا دیں پیش اوپر خون پر


 
Top