محمد احسن سمیع راحلؔ
محفلین
عزیزانِ گرامی، آداب.
ایک پرانی غزل آپ سب کے ذوق کی نذر. امید ہے کہ احباب اپنی قیمتی آراء سے ضرور نوازیں گے.
دعاگو،
راحلؔ.
.........................................................................
یہ جاہ ہوتی نہیں، یہ حشم نہیں ہوتا
گدا ہی رہتا جو رب کا کرم نہیں ہوتا
نہ شورِ نوحہ گری میں سکوں، نہ ماتم میں
یہ کیسا غم ہے جو بٹ کر بھی کم نہیں ہوتا!
خدا کے واسطے مجھ کو اب اپنی جاں نہ کہو
تمہارا ہوتا، تو زیرِ ستم نہیں ہوتا!
یہ دلبری، یہ لگاوٹ، یہ سب دکھاوا ہے
زباں پہ سچ ہو تو لہجوں میں خم نہیں ہوتا
صلیب و دار تو رستہ ہیں میری منزل کا
ڈریں وہ، جن کے ارادوں میں دم نہیں ہوتا
زمانوں پہلے اٹھایا تھا ماں نے دستِ دعا
اسی کا فیض ہے جو اب بھی کم نہیں ہوتا
جو ہوتا واقعی مایوس میں اگر راحلؔ
سنان ہاتھ میں ہوتی، قلم نہیں ہوتا
ایک پرانی غزل آپ سب کے ذوق کی نذر. امید ہے کہ احباب اپنی قیمتی آراء سے ضرور نوازیں گے.
دعاگو،
راحلؔ.
.........................................................................
یہ جاہ ہوتی نہیں، یہ حشم نہیں ہوتا
گدا ہی رہتا جو رب کا کرم نہیں ہوتا
نہ شورِ نوحہ گری میں سکوں، نہ ماتم میں
یہ کیسا غم ہے جو بٹ کر بھی کم نہیں ہوتا!
خدا کے واسطے مجھ کو اب اپنی جاں نہ کہو
تمہارا ہوتا، تو زیرِ ستم نہیں ہوتا!
یہ دلبری، یہ لگاوٹ، یہ سب دکھاوا ہے
زباں پہ سچ ہو تو لہجوں میں خم نہیں ہوتا
صلیب و دار تو رستہ ہیں میری منزل کا
ڈریں وہ، جن کے ارادوں میں دم نہیں ہوتا
زمانوں پہلے اٹھایا تھا ماں نے دستِ دعا
اسی کا فیض ہے جو اب بھی کم نہیں ہوتا
جو ہوتا واقعی مایوس میں اگر راحلؔ
سنان ہاتھ میں ہوتی، قلم نہیں ہوتا