محمد تابش صدیقی
منتظم
یہ حالت ہو گئی ضبطِ فغاں سے
پھنکا جاتا ہے دل سوزِ نہاں سے
بھلا آئے یقیں ہم کو کہاں سے
ہمارا ذکر اور ان کی زباں سے
گلے مل لوں ذرا عمرِ رواں سے
اٹھایا جا رہا ہوں آستاں سے
ہوا خونِ تمنا اشک نکلے
کہاں کی بات ظاہر ہے کہاں سے
اُنھیں مائل کیا میں نے وفا پر
کہ تارے توڑ لایا آسماں سے
غموں کی چوٹ سے آنسو نہ نکلیں
وہ دل پتھر کا میں لاؤں کہاں سے
نظرؔ آتے ہیں وہ حیراں پشیماں
سنایا تھا ابھی کچھ داستاں سے
محمد عبد الحمید صدیقی نظرؔ لکھنوی