دانش نذیر دانی
محفلین
غزل
یہ صبح تاریکیوں کو گردوں سے عاق کرتی کہ رو دیا میں
سکوت ِ شب کو خیال ِ جاں نے دی ایسی تھپکی کہ رو دیا میں
مجھے لگا تھا سفر اندھیروں کا جان لے لے گا آج میری
چراغ ِ مدہم نے بیچ شب کے یوں آنکھ جھپکی کہ رو دیا میں
جناب ِ ساقی نے تذکرہ ءِ شباب چھیڑا تھا میکدے میں
تو جام پیتے ہی تجھ پہ میری وہ سوئی اٹکی کہ رو دیا میں
میں بلبلوں کا حمائیتی تھا کہ حال ان کا ہے میرے جیسا
گلاب چہروں نے آج مجھ سے وہ بات کہہ دی کہ رو دیا میں
پچھڑ کے مجھ سے نڈھال ہوگی مجھے یقیں ہے جناب ہوگی
وہ وصل کی شب تو میری بانہوں میں اتنی خش تھی کہ رو دیا میں
دانش نذیر دانی