غزل: یہ مت کہو کہ بھیڑ میں تنہا کھڑا ہوں میں ٭ عزمؔ شاکری

یہ مت کہو کہ بھیڑ میں تنہا کھڑا ہوں میں
ٹکرا کے آبگینے سے پتھر ہوا ہوں میں

آنکھوں کے جنگلوں میں مجھے مت کرو تلاش
دامن پہ آنسوؤں کی طرح آ گیا ہوں میں

یوں بے رخی کے ساتھ نہ منہ پھیر کے گزر
اے صاحبِ جمال ترا آئنہ ہوں میں

یوں بار بار مجھ کو صدائیں نہ دیجیے
اب وہ نہیں رہا ہوں کوئی دوسرا ہوں میں

میری برائیوں پہ کسی کی نظر نہیں
سب یہ سمجھ رہے ہیں بڑا پارسا ہوں میں

وہ بے وفا سمجھتا ہے مجھ کو اسے کہو
آنکھوں میں اس کے خواب لیے پھر رہا ہوں میں

٭٭٭
عزمؔ شاکری
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
واہ! اچھا انتخاب ہے تابش بھائی ۔
تابش بھائی ، اب ٹائپو درست کرنے پر آہی گئے ہیں تو عنوان میں بھی درستی کردیجئے ۔ نیز تیسرے شعر میں آئینہ کو بھی آئنہ بنادیجئے۔
شاعر موصوف نے آخری شعر میں وہی غلطی کی ہے کہ جو اب عام ہوتی جارہی ہے ۔ یعنی "اُس سے کہو" کے بجائے اُسے کہو لکھا ہے ۔ :)
 
Top