سید عاطف علی
لائبریرین
ایک غزل ۔احسان دانش۔
مجھے بہت پسند آئی ۔
کل رات کچھ عجیب سماں غم کدے میں تھا
میں جس کو ڈھونڈھتا تھا مرے آئنے میں تھا
جس کی نگاہ میں تھیں ستاروں کی منزلیں
وہ میر کائنات اسی قافلے میں تھا
رہ گیر سن رہے تھے یہ کس جشن نو کا شور
کل رات میرا ذکر یہ کس سلسلے میں تھا
رقصاں تھے رند جیسے بھنور میں شفق کے پھول
جو پاؤں پڑ رہا تھا بڑے قاعدے میں تھا
چھڑکا جسے عدم کے سمندر پہ آپ نے
صحرا تمام خاک کے اس بلبلے میں تھا
منت گزار اہل ہوس ہو سکا نہ دل
حائل مرا ضمیر مرے راستے میں تھا
ہے فرض اس عطائے جنوں کا بھی شکریہ
لیکن یہ بے شمار کرم کس صلے میں تھا
اب آ کے کہہ رہے ہو کہ رسوائی سے ڈرو
یہ بال تو کبھی کا مرے آئینے میں تھا
سنتا ہوں سرنگوں تھے فرشتے مرے حضور
میں جانے اپنی ذات کے کس مرحلے میں تھا
ہیں ثبت میرے دل پہ زمانے کی ٹھوکریں
میں ایک سنگ راہ تھا جس راستے میں تھا
کچھ بھی نہ تھا ازل میں بجز شعلۂ وجود
ہاں دور تک عدم کا دھواں حاشیے میں تھا
میں نے جو اپنا نام پکارا تو ہنس پڑا
یہ مجھ سا کون شخص مرے راستے میں تھا
تھی نقطۂ نگاہ تک آزادئ عمل
پرکار کی طرح میں رواں دائرے میں تھا
زنجیر کی صدا تھی نہ موج شمیم زلف
یہ کیا طلسم ان کے مرے فاصلے میں تھا
اب روح اعتراف بدن سے ہے منحرف
اک یہ بھی سنگ میل مرے راستے میں تھا
دانشؔ کئی نشیب نظر سے گزر گئے
ہر رند آئنے کی طرح میکدے میں تھ
مجھے بہت پسند آئی ۔
کل رات کچھ عجیب سماں غم کدے میں تھا
میں جس کو ڈھونڈھتا تھا مرے آئنے میں تھا
جس کی نگاہ میں تھیں ستاروں کی منزلیں
وہ میر کائنات اسی قافلے میں تھا
رہ گیر سن رہے تھے یہ کس جشن نو کا شور
کل رات میرا ذکر یہ کس سلسلے میں تھا
رقصاں تھے رند جیسے بھنور میں شفق کے پھول
جو پاؤں پڑ رہا تھا بڑے قاعدے میں تھا
چھڑکا جسے عدم کے سمندر پہ آپ نے
صحرا تمام خاک کے اس بلبلے میں تھا
منت گزار اہل ہوس ہو سکا نہ دل
حائل مرا ضمیر مرے راستے میں تھا
ہے فرض اس عطائے جنوں کا بھی شکریہ
لیکن یہ بے شمار کرم کس صلے میں تھا
اب آ کے کہہ رہے ہو کہ رسوائی سے ڈرو
یہ بال تو کبھی کا مرے آئینے میں تھا
سنتا ہوں سرنگوں تھے فرشتے مرے حضور
میں جانے اپنی ذات کے کس مرحلے میں تھا
ہیں ثبت میرے دل پہ زمانے کی ٹھوکریں
میں ایک سنگ راہ تھا جس راستے میں تھا
کچھ بھی نہ تھا ازل میں بجز شعلۂ وجود
ہاں دور تک عدم کا دھواں حاشیے میں تھا
میں نے جو اپنا نام پکارا تو ہنس پڑا
یہ مجھ سا کون شخص مرے راستے میں تھا
تھی نقطۂ نگاہ تک آزادئ عمل
پرکار کی طرح میں رواں دائرے میں تھا
زنجیر کی صدا تھی نہ موج شمیم زلف
یہ کیا طلسم ان کے مرے فاصلے میں تھا
اب روح اعتراف بدن سے ہے منحرف
اک یہ بھی سنگ میل مرے راستے میں تھا
دانشؔ کئی نشیب نظر سے گزر گئے
ہر رند آئنے کی طرح میکدے میں تھ