محمد علم اللہ
محفلین
غزل
اے عشق تری باتیں کیا حسن بھلا سمجھے
جو خود کو بڑا سمجھے، اس سے تو خدا سمجھے
بے ربط اشاروں کو آخر کوئی کیا سمجھے
لگتی ہے گلے آکر بس کوئی بلا سمجھے
سو طرز بدلتا ہے خنجرِ مرے سینے تک
سو بارَ مرے، تب ہم انداز جفا سمجھے
چھوٹے جو قفس سے ہم، زنداں میں پڑے جاکر
وسعت کی فراوانی پر خود کو رہا سمجھے
جب تک کہ رہی غفلت، دیوانہ کہا دل کو
آنکھوں کو سمندر اور زلفوں کو گھٹا سمجھے
جب سامنے یثربؔ وہ آئینے کے سنورے تو
کیا چیز، سجاتی ہے آنکھوں میں حیا،سمجھے
ضیاء الرحمان اعظمی
اے عشق تری باتیں کیا حسن بھلا سمجھے
جو خود کو بڑا سمجھے، اس سے تو خدا سمجھے
بے ربط اشاروں کو آخر کوئی کیا سمجھے
لگتی ہے گلے آکر بس کوئی بلا سمجھے
سو طرز بدلتا ہے خنجرِ مرے سینے تک
سو بارَ مرے، تب ہم انداز جفا سمجھے
چھوٹے جو قفس سے ہم، زنداں میں پڑے جاکر
وسعت کی فراوانی پر خود کو رہا سمجھے
جب تک کہ رہی غفلت، دیوانہ کہا دل کو
آنکھوں کو سمندر اور زلفوں کو گھٹا سمجھے
جب سامنے یثربؔ وہ آئینے کے سنورے تو
کیا چیز، سجاتی ہے آنکھوں میں حیا،سمجھے
ضیاء الرحمان اعظمی