محمد شکیل خورشید
محفلین
ایک تازہ غزل احباب کے ذوق کی نذر
میں نہیں جانتا میں نہیں جانتا
دل نہیں مانتا میں نہیں جانتا
اس زمانے میں مکر و فریب و دغا
کیسے پہچانتا میں نہیں جانتا
کیا ہے منشا مری کیا مری ہے رضا
دل ہے کیا ٹھانتا میں نہیں جانتا
کون خوشیاں زمانے میں بانٹے پھرے
سنت یا سانتا میں نہیں جانتا
مصلحت کوشی شہرِ جفا کی شکیل
کیسے میں جانتا میں نہیں جانتا
میں نہیں جانتا میں نہیں جانتا
دل نہیں مانتا میں نہیں جانتا
اس زمانے میں مکر و فریب و دغا
کیسے پہچانتا میں نہیں جانتا
کیا ہے منشا مری کیا مری ہے رضا
دل ہے کیا ٹھانتا میں نہیں جانتا
کون خوشیاں زمانے میں بانٹے پھرے
سنت یا سانتا میں نہیں جانتا
مصلحت کوشی شہرِ جفا کی شکیل
کیسے میں جانتا میں نہیں جانتا