اریب آغا ناشناس
محفلین
مپُرس حاِل دلِ زار، بین چشمِ پُر آب
دلم زِ آتشِ کرب و بلا، کباب کباب
به رنگ و بویِ اُو مست است هر کس و ناکس
کسی ندید و نفهمید زخم هایِ گلاب
میانِ دل زدگان بود و باشِ این عاجز
من آفتابِ درخشندهام نه من مہتاب
نه این مدام بدستم نه آن مدام بدست
نه آرزویِ گلِ تر نه آرزویِ شباب
فسرده بودم و منقار زیرِ پر بودم
خوش آمدی که شگفتم مثالِ برگِ گلاب
سلامِ آخرِ دودِ چراغِ کشتهِ شب
تو باشی زنده و تابنده، ای گلِ مهتاب!
ترجمہ:
دل ناگفتہ حالت میں ہے، احوال مت پوچھ۔ آنکھوں سے امنڈتے ہوتے آنسوؤں پر نظر ڈال۔
دگھ درد کی آگ میں میرا دل جل بھُن کر کباب ہو چکا ہے۔
ہر کس و ناکس گلاب کے رنگ و بو ہی میں مست ہے۔ اس کے زخموں کو نہ تو کسی نے دیکھا نہ سمجھا۔
مجھ عاجز انسان کا بسیرا دُکھی انسانوں کے مابین ہے۔
میں نہ تو جگر مکر کرتا سورج ہوں نہ ہی کوئ چاند ہوں۔
نہ ہی تروتازہ پھول کبھی ہمیشہ میرے ہاتھ میں رہا اور نہ ہی عالمِ شباب ہمیشہ میری تحویل میں رہا۔
سو نہ تو مجھے پھول کے حصول کی تمنّا ہے نہ جوانی کی۔
میں سر نیہواڑے اداس بیٹھا تھا ۔
ایسے میں تمہاری آمد بہت خوش کن ہے کہ میرا دل گلاب کی پتیوں جیسا کھِل اٹھا ہے۔
رات کے بجھ جانے والے چراغ کے دھوئیں کا آخری سلام قبول ہو!
اے گلُِ مہتاب! دعا ہے کہ تو زندہ و تابندہ رہے!
شجاعت علی راهی
17 جون 2007
بحریہ ٹاؤن ، راولپنڈی
دلم زِ آتشِ کرب و بلا، کباب کباب
به رنگ و بویِ اُو مست است هر کس و ناکس
کسی ندید و نفهمید زخم هایِ گلاب
میانِ دل زدگان بود و باشِ این عاجز
من آفتابِ درخشندهام نه من مہتاب
نه این مدام بدستم نه آن مدام بدست
نه آرزویِ گلِ تر نه آرزویِ شباب
فسرده بودم و منقار زیرِ پر بودم
خوش آمدی که شگفتم مثالِ برگِ گلاب
سلامِ آخرِ دودِ چراغِ کشتهِ شب
تو باشی زنده و تابنده، ای گلِ مهتاب!
ترجمہ:
دل ناگفتہ حالت میں ہے، احوال مت پوچھ۔ آنکھوں سے امنڈتے ہوتے آنسوؤں پر نظر ڈال۔
دگھ درد کی آگ میں میرا دل جل بھُن کر کباب ہو چکا ہے۔
ہر کس و ناکس گلاب کے رنگ و بو ہی میں مست ہے۔ اس کے زخموں کو نہ تو کسی نے دیکھا نہ سمجھا۔
مجھ عاجز انسان کا بسیرا دُکھی انسانوں کے مابین ہے۔
میں نہ تو جگر مکر کرتا سورج ہوں نہ ہی کوئ چاند ہوں۔
نہ ہی تروتازہ پھول کبھی ہمیشہ میرے ہاتھ میں رہا اور نہ ہی عالمِ شباب ہمیشہ میری تحویل میں رہا۔
سو نہ تو مجھے پھول کے حصول کی تمنّا ہے نہ جوانی کی۔
میں سر نیہواڑے اداس بیٹھا تھا ۔
ایسے میں تمہاری آمد بہت خوش کن ہے کہ میرا دل گلاب کی پتیوں جیسا کھِل اٹھا ہے۔
رات کے بجھ جانے والے چراغ کے دھوئیں کا آخری سلام قبول ہو!
اے گلُِ مہتاب! دعا ہے کہ تو زندہ و تابندہ رہے!
شجاعت علی راهی
17 جون 2007
بحریہ ٹاؤن ، راولپنڈی
آخری تدوین: