الف عین
لائبریرین
غزل
شاذ تمکنت
زندگی تیری رفاقت نہ ملی
آئینہ دیکھا تو صورت نہ ملی
ہم نے کیا جنسِ گراں پائ ہے
بیچنے نکلے تو قیمت نہ ملی
تو کہ ہے میری ضرورت جیسے
زندگی حسبِ ضرورت نہ ملی
ایک دنیا ہے جسے دنیا میں
بار پانے کی اجازت نہ ملی
ہم ادھورے نظر آئے کیا کیا
جب ترے ملنے کی صورت نہ ملی
آج کھولا تھا درِ خانۂ دل
ایک بھی چیز سلامت نہ ملی
روز ہم قتل ہوئے شاذ مگر
خوں بہا کیا کہ شہادت نہ ملی
شاذ تمکنت
زندگی تیری رفاقت نہ ملی
آئینہ دیکھا تو صورت نہ ملی
ہم نے کیا جنسِ گراں پائ ہے
بیچنے نکلے تو قیمت نہ ملی
تو کہ ہے میری ضرورت جیسے
زندگی حسبِ ضرورت نہ ملی
ایک دنیا ہے جسے دنیا میں
بار پانے کی اجازت نہ ملی
ہم ادھورے نظر آئے کیا کیا
جب ترے ملنے کی صورت نہ ملی
آج کھولا تھا درِ خانۂ دل
ایک بھی چیز سلامت نہ ملی
روز ہم قتل ہوئے شاذ مگر
خوں بہا کیا کہ شہادت نہ ملی