منصور آفاق
محفلین
وہ نشانے پہ مرے آخری طائر ہونا
پھر اُسی آن کہیں اور سے فائر ہونا
حاکمِ وقت کے چہرے پہ طمانچے کی طرح
قحط کے شہر میں غلے کے ذخائر ہونا
زندگی ! تیری کچہری میں کئی سال سے ہوں
کب عدالت میں مرا کیس ہے دائر ہونا
تیری آنکھوں کے علاوہ یہ کہاں ممکن ہے
مرتکز رہنا وہیں ، دھیان بغائر ہونا
یاد کی سمت مسلسل مرا چلنا جیسے
سنگ ریزوں میں کسی کار کا ٹائر ہونا
پاﺅں کو چومتی تھیں قوسِ قزح کی کرنیں
رنگ لایا مرا اجمیر کا زائر ہونا
یاد آتا ہے مجھے دکھ کا سمندر منصور
اور اطراف میں تاریک جزائر ہونا
کبھی خوشبو میں کبھی پھول میں ظاہر ہونا
کیا ضروری تھا ترا ذات سے باہر ہونا
کیسے ہونا ہے ترا حدِ خرد سے آگے
کیسے ہونا ہے مرا صرف بظاہر ہونا
کیسے ہو سکتا ہے عرفانِ الہی کا ثبوت
یہ مرا کشف و کرامات میں ماہر ہونا
کہہ رہا ہے یہ بہت کچھ اے مرے تیغ بدست
ہاتھ میں ترے وہاں طشتِ جواہر ہونا
کیسے ممکن ہے زر و مال پہ مرنے والو
گند میں جسم کا پاکیزہ و طاہر ہونا
دیکھیں جو شانِ رحیمی تو کہیں ہم جیسے
زیب اللہ کو دیتا نہیں قاہر ہونا
ایک اطلاع ہے ترے ہونے کی منصور مجھے
میرے اطراف میں فطرت کے مظاہر ہونا
اپنا ثابت ہے زمانوں کا محاصر ہونا
جین میں اپنے ازل زاد عناصر ہونا
موت کے روڈ پہ نکلا ہوں برہنہ تن میں
میرے مولا تُو مرا حامی و ناصر ہونا
اچھی لگتی ہیں نکھرتی ہوئی آنکھیں مجھ کو
اچھا لگتا ہے غزالوں سے متاثر ہونا
اس سے ملنے پہ بضد رہنا کسی وحشت میں
اپنے حالات سمجھنے سے بھی قاصر ہونا
میں زمانے سے ذرا آگے نکل آیا ہوں
غالب و میر کو تھا میرا معاصر ہونا
ہر بصارت کو ضروری ہے بصیرت منصور
دیکھنے کےلئے کافی نہیں باصر ہونا
پبلشر درد کا ، تکلیف کا ناشر ہونا
ایسا ہی ہے ترے منصور کا شاعر ہونا
آنکھیں اک سرخ سمندر میں رہی ہیں جیسے
عمر بھر بحری جہازوں کا مسافر ہونا
صحنِ کعبہ میں بتوں سے بھی زیادہ ہے برا
کچھ مساجد میں جلادوں کے دفاتر ہونا
ہم اشارہ ہیں کہ آوازِ خداوندی ہیں
اپنا ہونا ہے فقط حکم کا صادر ہونا
دیکھ تو شمعِ غزل! زندہ مزاروں کی طرف
ظلم یہ تیرا کتابوں کا مجاور ہونا
مان لیتے ہیں وطن کی بھی بڑائی لیکن
کیسا رتبہ ہے مدنیہ کا مہاجر ہونا
پہلے انکار ہر ایک شے کا ضروری منصور
اس کا ہونا بھی تو دراصل ہے کافر ہونا
منصور آفاق