محمداحمد
لائبریرین
ضیا بلوچ ہمارے بہت ہی اچھے دوست ہیں لیکن اب ان سے گفتگو کی سبیل شاذ و نادر ہی ہوتی ہے۔ اُن کی خوبصورت غزل عالمی اخبار میں دیکھی تو سوچا کہ محفلین کے ساتھ بھی شریک کی جائے۔
غزل
آنکھوں پہ تو چھا جائے مگر دل میں نہ اُترے
ہم ایسے اُجالے کو اُجالا نہیں کہتے
اے کُشتہء انفاسِ جنوں تو ہی بتا دے
کیا مارنے والے کو مسیحا نہیں کہتے؟
ہر آنکھ پہ کھلتے نہیں اسرارِ محبت
ہر دیکھنے والے کو تو بینا نہیں کہتے
اپنا جسے کہتے ہیں وہ بنتا ہے پرایا
اس خوف سے ہم آپ کو اپنا نہیں کہتے
اک آگ سی سینے میں لگی ہے نہ بُجھی ہے
کیا ایسے تماشے کو معمہ نہیں کہتے
لب بستہ فقیروں کو کبھی غور سے دیکھو
خاموش نگاہوں سے یہ کیا کیا نہیں کہتے
احساس نہیں جن کوضیاء رنج و الم کا
دُکھ جھیلنے والے انہیں زندہ نہیں کہتے
ضیا بلوچ
بشکریہ : عالمی اخبار
غزل
آنکھوں پہ تو چھا جائے مگر دل میں نہ اُترے
ہم ایسے اُجالے کو اُجالا نہیں کہتے
اے کُشتہء انفاسِ جنوں تو ہی بتا دے
کیا مارنے والے کو مسیحا نہیں کہتے؟
ہر آنکھ پہ کھلتے نہیں اسرارِ محبت
ہر دیکھنے والے کو تو بینا نہیں کہتے
اپنا جسے کہتے ہیں وہ بنتا ہے پرایا
اس خوف سے ہم آپ کو اپنا نہیں کہتے
اک آگ سی سینے میں لگی ہے نہ بُجھی ہے
کیا ایسے تماشے کو معمہ نہیں کہتے
لب بستہ فقیروں کو کبھی غور سے دیکھو
خاموش نگاہوں سے یہ کیا کیا نہیں کہتے
احساس نہیں جن کوضیاء رنج و الم کا
دُکھ جھیلنے والے انہیں زندہ نہیں کہتے
ضیا بلوچ