محمداحمد
لائبریرین
غزل
اس خرابے کی تاریخ کچھ بھی سہی، رات ڈھلنی تو ہے رُت بدلنی تو ہے
خیمہء خاک سے روشنی کی سواری نکلنی تو ہے رُت بدلنی تو ہے
کیا ہوا جو ہوائیں نہیں مہرباں، اک تغیّر پہ آباد ہے یہ جہاں
بزم آغاز ہونے سے پہلے یہاں، شمع جلنی تو ہے رُت بدلنی تو ہے
دامنِ دل ہو یا سایہ ء چشم و لب، دونوں بارش کی طرح برستے ہوں جب
ایسے عالم میں پھر بھیگ جانے کی خواہش مچلنی تو ہے رُت بدلنی تو ہے
ابر کے سلسلے اور پیاسی زمیں ، آگ بجھتی ہے پانی سے سورج نہیں
کہساروں پہ جمتی ہوئی برف اک دن پگھلنی تو ہے رُت بدلنی تو ہے
عشق ایجاد ہم سے ہوا ہے سو ہم، اس کے رمز و کنایہ سے واقف بھی ہیں
تیرے بیمار کی یہ جو حالت ہے آخر سنبھلنی تو ہے، رُت بدلنی تو ہے
سلیم کوثر