غزل ۔ اُس کے نزدیک غمِ ترکِ وفا کچھ بھی نہیں ۔ اختر شمار

محمداحمد

لائبریرین
غزل

اُس کے نزدیک غمِ ترکِ وفا کچھ بھی نہیں
مطمئن ایسا ہے وہ جیسے کہ ہوا کچھ بھی نہیں

اب تو ہاتھوں سے لکیریں بھی مٹی جاتی ہیں
اُس کو کھو کر تو میرے پاس رہا کچھ بھی نہیں

کل بچھڑنا ہے تو پھر عہدِ وفا سوچ کے باندھ
ابھی آغازِ محبت ہے گیا کچھ بھی نہیں

میں تو اس واسطے چپ ہوں کہ تماشہ نہ بنے
تو سمجھتا ہے مجھے تجھ سے گلہ کچھ بھی نہیں

اے شمار آنکھیں اسی طرح بچھائے رکھنا
جانے کس وقت وہ آجائے پتہ کچھ بھی نہیں

اختر شمار
 

زینب

محفلین
میں تو اس واسطے چپ ہوں کہ تماشہ نہ بنے
تو سمجھتا ہے مجھے تجھ سے گلہ کچھ بھی نہیں


شاندار
 

مزمل اختر

محفلین
غزل

اُس کے نزدیک غمِ ترکِ وفا کچھ بھی نہیں
مطمئن ایسا ہے وہ جیسے کہ ہوا کچھ بھی نہیں

اب تو ہاتھوں سے لکیریں بھی مٹی جاتی ہیں
اُس کو کھو کر تو میرے پاس رہا کچھ بھی نہیں

کل بچھڑنا ہے تو پھر عہدِ وفا سوچ کے باندھ
ابھی آغازِ محبت ہے گیا کچھ بھی نہیں

میں تو اس واسطے چپ ہوں کہ تماشہ نہ بنے
تو سمجھتا ہے مجھے تجھ سے گلہ کچھ بھی نہیں

اے شمار آنکھیں اسی طرح بچھائے رکھنا
جانے کس وقت وہ آجائے پتہ کچھ بھی نہیں

اختر شمار
بہت شاندار غزل کبھی کبھی تو آپ بیتی معلوم ہوتی ہے۔:)

اگر وہ پوچھ لیں ہم سے تمہیں کس بات کا ٖغم ہے
تو پھر کس بات کا غم ہے اگر وہ پوچھ لیں ہم سے
 
Top