غزل ۔ اپنی فضا سے اپنے زمانوں سے کٹ گیا ۔ اُمید فاضلی

محمداحمد

لائبریرین
غزل

اپنی فضا سے اپنے زمانوں سے کٹ گیا
پتھر خدا بنا تو چٹانوں سے کٹ گیا

پھینکا تھکن نے جال تو کیوں کر کٹے گی رات
دن تو بلندیوں میں اُڑانوں سے کٹ گیا

وہ سر کہ جس میں عشق کا سودا تھا کل تلک
اب سوچتا ہوں کیا مرے شانوں سے کٹ گیا

پھرتے ہیں پَھن اُٹھائے ہُوئے اب ہوس کے ناگ
شاید زمیں کا ربط خزانوں سے کٹ گیا

ڈوبا ہُوا ملا ہے مکینوں کے خون سے
وہ راستہ جو اپنے مکانوں سے کٹ گیا

مل کر جدا ہوا تھا کوئی اور اُس کے بعد
ہر ایک لمحہ اپنے زمانوں سے کٹ گیا

اُمید فاضلی​
 

طارق شاہ

محفلین
اپنی فضا سے اپنے زمانوں سے کٹ گیا
پتھر خدا بنا تو چٹانوں سے کٹ گیا

مطلع کا جواب نہیں ، بہت ہی معنی خیز
تشکّر شیئر کرنے پر ، احمد صاحب!

۔۔۔۔۔۔۔۔

ڈوبا ہُوا مِلا ہے مکینوں کے خُون سے !
وہ راستہ جو اپنے مکانوں سے کٹ گیا
:::::
بچھڑےمکیں کے خُون کے دھبّوں سے پُر مِلا
وہ راستہ ، جو اُن کے مکانوں سے کٹ گیا
 

ثامر شعور

محفلین
اپنی فضا سے اپنے زمانوں سے کٹ گیا
پتھر خدا بنا تو چٹانوں سے کٹ گیا

مل کر جدا ہوا تھا کوئی اور اُس کے بعد
ہر ایک لمحہ اپنے زمانوں سے کٹ گیا

بہت عمدہ انتخاب احمد بھائی ۔
 

محمداحمد

لائبریرین
کل غزل ہی عمدہ ہے ۔
شکریہ احمد بھائی
اپنی فضا سے اپنے زمانوں سے کٹ گیا
پتھر خدا بنا تو چٹانوں سے کٹ گیا

سبحان اللہ، عمدہ انتخاب :)

انتخاب کی پسندیدگی کے لئے تمام احباب کا شکریہ ۔ :love:
 

محمداحمد

لائبریرین
اپنی فضا سے اپنے زمانوں سے کٹ گیا
پتھر خدا بنا تو چٹانوں سے کٹ گیا
مطلع کا جواب نہیں ، بہت ہی معنی خیز
تشکّر شیئر کرنے پر ، احمد صاحب!
۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔


ڈوبا ہُوا مِلا ہے مکینوں کے خُون سے !
وہ راستہ جو اپنے مکانوں سے کٹ گیا
:::::
بچھڑےمکیں کے خُون کے دھبّوں سے پُر مِلا
وہ راستہ ، جو اُن کے مکانوں سے کٹ گیا

بہت شکریہ طارق بھائی۔۔۔۔!
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
پھرتے ہیں پَھن اُٹھائے ہُوئے اب ہوس کے ناگ
شاید زمیں کا ربط خزانوں سے کٹ گیا

واہ صاحب۔۔۔۔ کیا ہی کہنے۔۔۔۔ اس شعر کا لطف کمال ہے۔۔۔ واہ سبحان اللہ
 

محمداحمد

لائبریرین
پھرتے ہیں پَھن اُٹھائے ہُوئے اب ہوس کے ناگ
شاید زمیں کا ربط خزانوں سے کٹ گیا

واہ صاحب۔۔۔ ۔ کیا ہی کہنے۔۔۔ ۔ اس شعر کا لطف کمال ہے۔۔۔ واہ سبحان اللہ

بہت شکریہ ۔۔۔ انتخاب سے بھی کیا خوب شعر انتخاب کیا ہے آپ نے۔ :) :)
 
اردو کے معروف شاعر ندا فاضلی اب ہمارے درمیان نہیں رہے۔اٹہتر سال کی عمر میں دل کا دورہ پڑنے سے انکا انتقال ہو گیا۔آج وہ ہمارے درمیان نہیں ہیں۔ لیکن اپنی شاعری کی بدولت وہ ہمیشہ یاد کئے جائیں گے۔

اردو شاعر ندا فاضلی کا انتقال ہو گیا ہے۔۔ دل کا دورہ پڑنے سے انکا انتقال ہوا ۔ وہ اٹہتر برس کے تھے۔ مشاعروں میں انکی موجودگی کامیابی کی ضمانت سمجھی جاتی تھی۔ ۔ندا فاضلی کاجدید شاعری میں منفرد مقام تھا۔ اردو ادب میں انکی نمایاں خدمات کے لئے انھیں پد شری اور ساہتیہ اکاڈمی کے ایوارڈ سے نوازا گیا تھا۔ ندا فاضلی کے انتقال پر ادبی حلقوں میں غم کی لہر دوڑ گئی ہے۔مقتدا حسن ندا فاضلی : ندا فاضلی کے نام سے مشہور ہوئے۔ ان کی پیدائش گوالیار میں ہوئی تھی۔ ابتدائی تعلیم دہلی میں حاصل کی ۔ ان کے والد بھی شاعر تھے۔ تقسیم وطن کے بعد ان کے والدین اور خاندان کے افراد پاکستان چلے گئے، لیکن فاضلی ہندوستان ہی میں رہ گئے۔انسان اقدار ۔ انکی شاعری کا اصل موضوع رہیں۔ ملازمت کیلئے ممبئی کا رخ کیا۔ اور ممبئی سے نکلنے والے اخبار بلٹز کے لئے لکھنے لگے ۔ ان کا شاعرانہ لہجہ لوگوں کو پسند آیا ۔ انہوں نے غزلیں ،نظمیں اور نغمے لکھے جو انکی شہرت کا سبب بنے۔ دنیا جسے کہتے ہیں جادو کا کھلونہ ہے مل جائے تو مٹی ہے کھوجائے تو سوناہے" غزل بہت مشہور ہوئی۔

ندا فاضلی نے فلمی نغمے بھی تحریر کئے جن میں آ بھی جا تو اس طرح سے میری زندگی میں شامل ہے فلم ۔ آپ تو ایسے نہ تھے ۔ہوش والوں کو خبر کیا زندگی کیا چیز ہے۔ کافی مشہور ہوئے ۔۔۔
 
Top