محمداحمد
لائبریرین
غزل
ایک ہی آگ کے شعلوں میں جلائے ہوئے لوگ
روز مل جاتے ہیں دو چار ستائے ہوئے لوگ
وہی میں ہوں، وہی آسودہ خرامی میری
اور ہر سمت وہی دام بچھائے ہوئے لوگ
خواب کیسے کہ اب آنکھیں ہی سلامت رہ جائیں
وہ فضا ہے کہ رہیں خود کو بچائے ہوئے لوگ
تیرے محرم تو نہیں اے نگہِ ناز مگر
ہم کو پہچان کہ ہیں تیرے بُلائے ہوئے لوگ
زندگی دیکھ یہ انداز تری چاہت کا
کن صلیبوں کو ہیں سینے سے لگائے ہوئے لوگ
پھر وہی ہم ہیں وہی حلقہ ٴ یاراں بھی ہے شوقؔ
پھر وہی شہر، وہی سنگ اُٹھائے ہوئے لوگ
رضی اختر شوقؔ
ایک ہی آگ کے شعلوں میں جلائے ہوئے لوگ
روز مل جاتے ہیں دو چار ستائے ہوئے لوگ
وہی میں ہوں، وہی آسودہ خرامی میری
اور ہر سمت وہی دام بچھائے ہوئے لوگ
خواب کیسے کہ اب آنکھیں ہی سلامت رہ جائیں
وہ فضا ہے کہ رہیں خود کو بچائے ہوئے لوگ
تیرے محرم تو نہیں اے نگہِ ناز مگر
ہم کو پہچان کہ ہیں تیرے بُلائے ہوئے لوگ
زندگی دیکھ یہ انداز تری چاہت کا
کن صلیبوں کو ہیں سینے سے لگائے ہوئے لوگ
پھر وہی ہم ہیں وہی حلقہ ٴ یاراں بھی ہے شوقؔ
پھر وہی شہر، وہی سنگ اُٹھائے ہوئے لوگ
رضی اختر شوقؔ