محمداحمد
لائبریرین
غزل
تمھاری یاد سے ہٹ کر تو جی نہیں سکتے
ہم اپنی ذات سے کٹ کر تو جی نہیں سکتے
کسی بھی طور سے سر کو اُٹھائے رکھنا ہے
کہ اپنے سائے سے گھٹ کر تو جی نہیں سکتے
جلا کہ کشتیاں رہ میں تمھاری آئے ہیں
تمھاری رہ سے پلٹ کر تو جی نہیں سکتے
ہمیں بھی اب سرِ تسلیم خم تو کرنا ہے
ہزار خانوں میں بٹ کر تو جی نہیں سکتے
رگوں میں دوڑتا ہے ضبط سے لہو اپنا
نہ روئے تم سے لپٹ کر تو جی نہیں سکتے
شمیم احمد
تمھاری یاد سے ہٹ کر تو جی نہیں سکتے
ہم اپنی ذات سے کٹ کر تو جی نہیں سکتے
کسی بھی طور سے سر کو اُٹھائے رکھنا ہے
کہ اپنے سائے سے گھٹ کر تو جی نہیں سکتے
جلا کہ کشتیاں رہ میں تمھاری آئے ہیں
تمھاری رہ سے پلٹ کر تو جی نہیں سکتے
ہمیں بھی اب سرِ تسلیم خم تو کرنا ہے
ہزار خانوں میں بٹ کر تو جی نہیں سکتے
رگوں میں دوڑتا ہے ضبط سے لہو اپنا
نہ روئے تم سے لپٹ کر تو جی نہیں سکتے
شمیم احمد