محمداحمد
لائبریرین
غزل
توفیق بنا دل میں ٹھکانہ نہیں ملتا
نقشے کی مدد سے یہ خزانہ نہیں ملتا
پلکوں پہ سُلگتی ہوئی نیندوں کا دھواں ہے
آنکھوں میں کوئی خواب سہانا نہیں ملتا
ملتی ہی نہیں اُس کو ملاقات کی راہیں
اور مجھ کو نہ ملنے کا بہانہ نہیں ملتا
تم جانتے ہو وقت سے بنتی نہیں میری
ضد کس لئے کرتے ہو کہا نا، نہیں ملتا
کیا یہ بھی کوئی رسمِ رقابت ہے کہ جس میں
تم ملتے ہو مُجھ سے تو زمانہ نہیں ملتا
سلیم کوثر