غزل ۔ جس کی آنکھوں میں کوئی رنگِ شناسائی نہ تھا ۔ سجاد مرزا

محمداحمد

لائبریرین
غزل

جس کی آنکھوں میں کوئی رنگِ شناسائی نہ تھا
اس سے ملنے کا مرا دل بھی تمنّا ئی نہ تھا

ہم دیارِ غیر میں کہتے رہیں ہیں دل کی بات
ایک اپنے شہر ہی میں اذنِ گویائی نہ تھا

جذبہ ء دل کے بہک جانے سے رسوا ہو گئے
کوچہء محبوب ورنہ کوئے رسوائی نہ تھا

ظلمتِ شب کو جہاں نورِ سحر کہتے تھے لوگ
میرا سچ کہنا سزاوارِ پذیرائی نہ تھا

تیری بے مہری نہ تھی، کوتاہیء قسمت بھی تھی
کارززارِ دل میں ورنہ شوقِ پسپائی نہ تھا

میری اپنی ذات ہی اک انجمن سے کم نہ تھی
اِس لئ سجادؔ مجھ کو خوفِ تنہائی نہ تھا

سجّاد مرزا
 
Top