غزل ۔ درد سمیٹتی ہوئی صبح کی لالہ تاب لَو ۔ ضیاء جالندھری

محمداحمد

لائبریرین
غزل

درد سمیٹتی ہوئی صبح کی لالہ تاب لَو
دل میں گزشتہ شب کی یاد، آنکھ میں آتے دن کی ضَو

دل پہ سہج سہج کُھلا غنچہ مثال وہ جمال
دیکھیں تو اُس کی ایک چھب، سوچیں تو اُس کے روپ سَو

ترکِ تعلقات سے جانچ نہ دل کی کیفیت
وہ تھا انا کا برف زار، یہ ہے لہو کی گُپت لَو

خواہشِ خود فریب کا سلسلہ ٹُوٹتا نہیں
پھر کہیں روشنی سی ہے، پھر کہیں پُھوٹتی ہے پَو

سینے میں سیلِ پیچ و تاب، سلسلہ ء شکستِ خواب
سوچ، سوال ، اضطراب، تازہ بتازہ نو بہ نو

دشت میں میرے رہنما، ریت پہ سُرخ نقشِ پا
شمعیں جلا کے رکھ گئے اپنے لہو سے پیش رَو

دورِ ہوس پرست میں ڈھونڈ رہی ہے آنکھ اُنہیں
جن کی نظر میں بیش تھا، خوانِ شہی سےنانِ جو

شام و سحر بدل گئے، قلب و نظر بدل گئے
یاد ہے مجھ کو اِس کے ساتھ آئی تھی ایک تیز رَو

ضیاء جالندھری
 

مغزل

محفلین
واہ واہ وہ واہ ۔۔ کیا کہنے کیا کہنے ، بہت خوب احمد بھیا ، سدا سلامت رہو ،دو ایک جگہ کامہ وغیر ہ آپ نے اضافی لگادیا ، خیر
 
Top