غزل ۔ دور جاتے ہوئے قدموں کی نوا میں گُم ہوں از نویدظفرکیانی

دور جاتے ہوئے قدموں کی نوا میں گُم ہوں
جانے کب سے کسی صدمے کی فضا میں گُم ہوں
تیری تصویر کہ باتیں کئے جائے مجھ سے
اور میں ہوں کہ کسی چُپ کی گُُپھا میں گُم ہوں
اپنی پہچان کی منزل نہیں آئی اب تک
میں کہ خوشبو کی طرح بادِصبا میں گُم ہوں
پی لیا جس نے مرے چین کو سگریٹ کی طرح
ہائے اب بھی اُنہیں گلیوں کی ہوا میں گُم ہوں
اپنے ہونے کی خبر ہے نہ زمانے کا پتہ
ایک مدت سے مگر کُن کی صدا میں گُم ہوں
تیرے خوابوں نے مجھے چھین لیا تھا کل بھی
آج بھی دور بہت دور خلا میں گُم ہوں
اب میں کیا خاک کروں سمتِ سفر کو موزوں
عمرِ رفتہ کی کسی لغزشِ پا میں گُم ہوں
نویدظفرکیانی
 

نایاب

لائبریرین
بہت اعلی
تیری تصویر کہ باتیں کئے جائے مجھ سے
اور میں ہوں کہ کسی چُپ کی گُُپھا میں گُم ہوں
 

طارق شاہ

محفلین
نوید ظفر کیانی صاحب !
ایک اچھی غزل پر داد قبول کیجئے
تعام اشعار خوب اور مربوط ہیں ، سوائے

پی لیا جس نے مرے چین کو سگریٹ کی طرح
ہائے اب بھی اُنہیں گلیوں کی ہوا میں گُم ہوں
بالا شعر کا پہلا مصرع اس غزل میں' مخمل میں ٹاٹ کا پیوند' کی طرح ہے​
اسے بدل دیں گے تو مناسب ہوگا!​
کھوچکے جن میں کبھی چین ، سبھی موزونی​
ہائے اب بھی، اُنہیں گلیوں کی ہوا میں گُم ہیں​
یا​
کھوچکے اپنا جہاں چین ، سبھی موزونی​
ہائے اب بھی اُنہیں گلیوں کی ہوا میں گُم ہیں​
کچھ بھی اس قسم کا کہ زبان و بیان بقیہ اشعار کی طرح ہو (ہم آہنگی)​
ایک بار پھر سے بہت سی داد قبول کیجئے ، اور لکھتے رہے​
 

طارق شاہ

محفلین
کھوچکا جن میں کبھی چین ، سبھی موزونی
ہائے اب بھی، اُنہیں گلیوں کی ہوا میں گُم ہوں
یا
کھوچکا اپنا جہاں چین ، سبھی موزونی
ہائے اب بھی اُنہیں گلیوں کی ہوا میں گُم ہوں
 
Top