ایس فصیح ربانی
محفلین
شاہین فصیحؔ ربانی
غزل
رابطہ جب مہ و اختر سے ہوا
آشنا رات کے منظر سے ہوا
پل گھڑی دُور سمندر سے رہے
یہ کہاں تیرے شناور سے ہوا
چوٹ باہر کی تو سہ جاتا میں
وار مجھ پر مرے اندر سے ہوا
فوج دشمن کی تعاقب میں نہ تھی
قتل میں اپنے ہی لشکر سے ہوا
مجھ کو دنیا سے شکایت کیوں ہو
جو ہوا، میرے مقدر سے ہوا
میرے دیکھے سے دئیے جل اٹھے
کیا ترے پاؤں کی ٹھوکر سے ہوا
کارگر پھول کی کوشش نہ ہوئی
چور چور آئنہ پتھر سے ہوا
برف کے ہاتھ کہاں سے لاؤں
سامنا موم کے پیکر سے ہوا
لفظ ہی ساتھ مرا چھوڑ گئے
کون خاموش ترے ڈر سے ہوا
چل دیا ساتھ مرا گھر بھی فصیح
میں روانہ جو کبھی گھر سے ہوا
غزل
رابطہ جب مہ و اختر سے ہوا
آشنا رات کے منظر سے ہوا
پل گھڑی دُور سمندر سے رہے
یہ کہاں تیرے شناور سے ہوا
چوٹ باہر کی تو سہ جاتا میں
وار مجھ پر مرے اندر سے ہوا
فوج دشمن کی تعاقب میں نہ تھی
قتل میں اپنے ہی لشکر سے ہوا
مجھ کو دنیا سے شکایت کیوں ہو
جو ہوا، میرے مقدر سے ہوا
میرے دیکھے سے دئیے جل اٹھے
کیا ترے پاؤں کی ٹھوکر سے ہوا
کارگر پھول کی کوشش نہ ہوئی
چور چور آئنہ پتھر سے ہوا
برف کے ہاتھ کہاں سے لاؤں
سامنا موم کے پیکر سے ہوا
لفظ ہی ساتھ مرا چھوڑ گئے
کون خاموش ترے ڈر سے ہوا
چل دیا ساتھ مرا گھر بھی فصیح
میں روانہ جو کبھی گھر سے ہوا