غزل ۔ رابطہ جب مہ و اختر سے ہوا

شاہین فصیحؔ ربانی
غزل
رابطہ جب مہ و اختر سے ہوا
آشنا رات کے منظر سے ہوا

پل گھڑی دُور سمندر سے رہے
یہ کہاں تیرے شناور سے ہوا

چوٹ باہر کی تو سہ جاتا میں
وار مجھ پر مرے اندر سے ہوا

فوج دشمن کی تعاقب میں نہ تھی
قتل میں اپنے ہی لشکر سے ہوا

مجھ کو دنیا سے شکایت کیوں ہو
جو ہوا، میرے مقدر سے ہوا

میرے دیکھے سے دئیے جل اٹھے
کیا ترے پاؤں کی ٹھوکر سے ہوا

کارگر پھول کی کوشش نہ ہوئی
چور چور آئنہ پتھر سے ہوا

برف کے ہاتھ کہاں سے لاؤں
سامنا موم کے پیکر سے ہوا

لفظ ہی ساتھ مرا چھوڑ گئے
کون خاموش ترے ڈر سے ہوا

چل دیا ساتھ مرا گھر بھی فصیح
میں روانہ جو کبھی گھر سے ہوا
 

الف عین

لائبریرین
واہ اچھی غزل ہے بطور خاص یہ شعر۔۔۔
برف کے ہاتھ کہاں سے لاؤں
سامنا موم کے پیکر سے ہوا
لیکن
کارگر پھول کی کوشش نہ ہوئی
چکنا چور آئنہ پتھر سے ہوا
میں چکنا چور کچھ اچھا نہیں لگتا، کہ الف گرتا ہے۔ محض ’چور چور‘ کہنے میں کیا حرج ہے؟
 
واہ اچھی غزل ہے بطور خاص یہ شعر۔۔۔
برف کے ہاتھ کہاں سے لاؤں
سامنا موم کے پیکر سے ہوا
لیکن
کارگر پھول کی کوشش نہ ہوئی
چکنا چور آئنہ پتھر سے ہوا
میں چکنا چور کچھ اچھا نہیں لگتا، کہ الف گرتا ہے۔ محض ’چور چور‘ کہنے میں کیا حرج ہے؟

محترم الف عین صاحب!
آپ کا میری اس ادنیٰ سی کاوش کو سراہنا، میرے لیے اعزاز کا درجہ رکھتا ہے،
اس نوازش کے لہے میں آپ کا تہِ دل سے شکرگزار ہوں،
"چور چور" والا مشورہ بھی بہت اچھا اور مقبول ہے۔
ہر ہر لمحہ شاداں و فرحاں رہیے۔
 
Top