شکیب جلالی غزل ۔ ساحل تمام اشکِ ندامت سے اٹ گیا ۔ شکیب جلالی

محمداحمد

لائبریرین
غزل

ساحل تمام اشکِ ندامت سے اٹ گیا
دریا سے کوئی شخص جو پیاسا پلٹ گیا

لگتا تھا بے کراں مجھے صحرا میں آسماں
پہنچا جو بستیوں میں تو خانوں میں بٹ گیا

یا اتنا سخت جان کہ تلوار بے اثر
یا اتنا نرم دل کہ رگِ گُل سے کٹ گیا

بانہوں میں آ سکا نہ حویلی کا اک سُتون
پُتلی میں میری آنکھ کی ، صحرا سمٹ گیا

اب کون جائے کوئے ملامت کو چھوڑ کر
قدموں سے آکے اپنا ہی سایہ لپٹ گیا

گنبد کا کیا قصور، اُسے کیوں کہو بُرا
آیا جدھر سے تیر، اُدھر ہی پلٹ گیا

رکھتا ہے خود سے کون حریفانہ کشمکش
میں تھا کہ رات اپنے مقابل ہی ڈٹ گیا

وہ لمحہٗ شعور جسے جانکنی کہیں
چہرے سے زندگی کے، نقابیں اُلٹ گیا

اک حشر سا بپا تھا مرے دل میں اے شکیب
کھولیں جو کھڑکیاں تو ذرا شور گھٹ گیا

شکیب جلالی
 

الف عین

لائبریرین
کیا خود ہی ٹائپ کیا ہے یہ کلام احمد؟ ذرا حوالہ دے دیا کریں۔ شکیب کی ای بک میں نے بنائی تھی (اب دیکھنا ہوگا کہ یہ نظم اس میں شامل ہے یا نہیں، کچھ میں نے بھی ٹائپ کیا تھا، کچھ دوسروں نے۔ لیکن دوسروں کا بہت کم کلام مل سکا تھا۔
 

محمداحمد

لائبریرین
کیا خود ہی ٹائپ کیا ہے یہ کلام احمد؟ ذرا حوالہ دے دیا کریں۔ شکیب کی ای بک میں نے بنائی تھی (اب دیکھنا ہوگا کہ یہ نظم اس میں شامل ہے یا نہیں، کچھ میں نے بھی ٹائپ کیا تھا، کچھ دوسروں نے۔ لیکن دوسروں کا بہت کم کلام مل سکا تھا۔

اعجاز عبید صاحب
آداب!

ٹائپ تو میں نے خود ہی کیا ہے لیکن ہے یہ غزل ای بُک (پی ڈی ایف فارمیٹ) ہی سے - یہ ای بُک کتاب گھر کی ہے اور "کلیاتِ شکیب" کے نام سے ہے۔

اسی کی ورق گردانی (scrolling) کے دوران یہ غزل مجھے اچھی لگی سو ٹائپ کرکے پوسٹ کردی۔ اس کتاب کے کل 69 صفحات ہیں اور ہر صفحہ پر اصل کتاب کے دو صفحے ہیں۔
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
بہت خوب! بہت اچھی غزل ہے!
احمد بھائی ، یاد پڑتا ہے کہ اسی زمین میں سلیم احمد کی بھی ایک غزل تھی جس کا ایک ادھورا سا مصرع کچھ یوں یاد پڑتا ہے: دریا کا شور لہروں میں بٹ گیا وغیرہ
اگر یاد ہو یا نظر سے گزری ہو تو شریک کیجئے گا ۔
 
Top