محمداحمد
لائبریرین
غزل
ساحل تمام اشکِ ندامت سے اٹ گیا
دریا سے کوئی شخص جو پیاسا پلٹ گیا
لگتا تھا بے کراں مجھے صحرا میں آسماں
پہنچا جو بستیوں میں تو خانوں میں بٹ گیا
یا اتنا سخت جان کہ تلوار بے اثر
یا اتنا نرم دل کہ رگِ گُل سے کٹ گیا
بانہوں میں آ سکا نہ حویلی کا اک سُتون
پُتلی میں میری آنکھ کی ، صحرا سمٹ گیا
اب کون جائے کوئے ملامت کو چھوڑ کر
قدموں سے آکے اپنا ہی سایہ لپٹ گیا
گنبد کا کیا قصور، اُسے کیوں کہو بُرا
آیا جدھر سے تیر، اُدھر ہی پلٹ گیا
رکھتا ہے خود سے کون حریفانہ کشمکش
میں تھا کہ رات اپنے مقابل ہی ڈٹ گیا
وہ لمحہٗ شعور جسے جانکنی کہیں
چہرے سے زندگی کے، نقابیں اُلٹ گیا
اک حشر سا بپا تھا مرے دل میں اے شکیب
کھولیں جو کھڑکیاں تو ذرا شور گھٹ گیا
شکیب جلالی
ساحل تمام اشکِ ندامت سے اٹ گیا
دریا سے کوئی شخص جو پیاسا پلٹ گیا
لگتا تھا بے کراں مجھے صحرا میں آسماں
پہنچا جو بستیوں میں تو خانوں میں بٹ گیا
یا اتنا سخت جان کہ تلوار بے اثر
یا اتنا نرم دل کہ رگِ گُل سے کٹ گیا
بانہوں میں آ سکا نہ حویلی کا اک سُتون
پُتلی میں میری آنکھ کی ، صحرا سمٹ گیا
اب کون جائے کوئے ملامت کو چھوڑ کر
قدموں سے آکے اپنا ہی سایہ لپٹ گیا
گنبد کا کیا قصور، اُسے کیوں کہو بُرا
آیا جدھر سے تیر، اُدھر ہی پلٹ گیا
رکھتا ہے خود سے کون حریفانہ کشمکش
میں تھا کہ رات اپنے مقابل ہی ڈٹ گیا
وہ لمحہٗ شعور جسے جانکنی کہیں
چہرے سے زندگی کے، نقابیں اُلٹ گیا
اک حشر سا بپا تھا مرے دل میں اے شکیب
کھولیں جو کھڑکیاں تو ذرا شور گھٹ گیا
شکیب جلالی