محمداحمد
لائبریرین
غزل
سب بدلتے جا رہے ہیں سر بسر اپنی جگہ
دشت اب اپنی جگہ باقی نہ گھر اپنی جگہ
نامساعد صورتِ حالات کے باوصف بھی
خود بنالیتے ہیں جنگل میں شجر اپنی جگہ
میں بھی نادم ہوں کہ سب کے ساتھ چل سکتا نہیں
اور شرمندہ ہیں میرے ہمسفر اپنی جگہ
کیوں سِمٹتی جا رہی ہیں خود بخود آبادیاں
چھوڑتے کیوں جا رہے ہیں بام و در اپنی جگہ
چاند کے ہمراہ وہ جلوہ نما ہے بام پر
اور قدموں کو پکڑتی رہگزر اپنی جگہ
جو کچھ اِن آنکھوں نے دیکھا ہے، میں اُس کا کیا کروں
شہر میں پھیلی ہوئی جھوٹی خبر اپنی جگہ
ایک اندیشہ تو اُس کی ہمرہی سے ہے مجھے
اور پھر اُس کے بچھڑ جانے کا ڈر اپنی جگہ
اِس نگر سے کوچ کرنا بھی مرے بس میں نہیں
اِس نگر پر میرے دشمن کا اثر اپنی جگہ
میں جمالؔ اپنی جگہ سے اس لئے ہٹتا نہیں
وہ گھڑی آجائے شاید لوٹ کر اپنی جگہ
جمال احسانی