محمداحمد
لائبریرین
غزل
سخن بے لفظ و بے منظر ہے کیسا
یہ سنّاٹا مرے اندر ہے کیسا
بناتا ہے فقط اپنی شبیہیں
ہمارے عہد کا آزر ہے کیسا
ہراک چہرے پہ ہیں دوہری نقابیں
دُھواں اس شہر کے اندر ہے کیسا
ہماری ڈور کس کے ہاتھ میں ہے
خرد مندو! یہ "پتلی گھر" ہے کیسا
میں بے زر، بے ضرر، تنہا مسافر
تعاقب میں مرے لشکر ہے کیسا
شبنم رومانی
سخن بے لفظ و بے منظر ہے کیسا
یہ سنّاٹا مرے اندر ہے کیسا
بناتا ہے فقط اپنی شبیہیں
ہمارے عہد کا آزر ہے کیسا
ہراک چہرے پہ ہیں دوہری نقابیں
دُھواں اس شہر کے اندر ہے کیسا
ہماری ڈور کس کے ہاتھ میں ہے
خرد مندو! یہ "پتلی گھر" ہے کیسا
میں بے زر، بے ضرر، تنہا مسافر
تعاقب میں مرے لشکر ہے کیسا
شبنم رومانی