غزل ۔ سر کھپائیں نہ زمانے والے ۔ بابر جاوید

محمداحمد

لائبریرین
غزل

سر کھپائیں نہ زمانے والے
ہم سمجھ میں نہیں آنے والے

بارِغم ، بارِجنوں ، بارِخرد
ہم تو ہیں بوجھ اٹھانےوالے

کیا کہیں جان کہاں ہاری تھی
کب یہ قصے ہیں سنانے والے

کبھی مجنوں ،کبھی فرہادہوئے
بستیاں چھوڑ کے جانے والے

ہم سے دیوانے کہاں ملتے ہیں
بات کرتے ہیں زمانے والے

عکس ٹھہرے ہیں تری دنیا کا
آئینوں سے نکل آنے والے

صبح سے شام کے بازار میں ہیں
موجِ خوں سے گزر آنے والے

یار لے آئے سجا کر پھر سے
تیغ پر زخم پرانے والے

دیکھ اے شمع شبستان وفا
جل اٹھے اشک بجھانے والے

اب وہ گیسو نہ پریشاں ہوں گے
اب وہ بادل نہیں چھانے والے

ہوشیار اے سگ ِکوئے جاناں
آ گئے ریچھ نچانے والے

عمر بھر حال فراموش رہے
حال فردا کا بتانے والے

دل کی دہلیز پہ رکتے ہی نہیں
نیند آنکھوں سے چرانے والے

آنکھ اک بار اٹھا کرتی ہے
پردہ چہرے سے اٹھانے والے

ایک کردار کے حامل نکلے
مرہم و زخم لگانے والے

دل پہ اک زخم بڑھا دیتے ہیں
روز احسان جتانے والے

گھر میں رہنا ہمیں دشوارہوا
اب کمانے لگے کھانے والے

کوئی باہر سے نہ آیا بابر
لٹ گئے گھر میں گھرانے والے

بابر جاوید
 

ش زاد

محفلین
دل پہ اک زخم بڑھا دیتے ہیں
روز احسان جتانے والے

اچھی غزل ہے احمد بھائی گو خیالات میں تازگی نہیں ہے مگر کچھ اشعار بہت اچھے ہیں

پیش کرنے کا شکریہ
 

محمد وارث

لائبریرین
شکریہ احمد صاحب خوبصورت غزل شیئر کرنے کیلیے!

بارِغم ، بارِجنوں ، بارِخرد
ہم تو ہیں بوجھ اٹھانےوالے

عکس ٹھہرے ہیں تری دنیا کا
آئینوں سے نکل آنے والے

واہ واہ، لاجواب!
 
Top