رئیس فروغ غزل ۔ سفر میں جب تلک رہنا سفر کی آرزو کرنا ۔ رئیس فروغ

محمداحمد

لائبریرین
غزل​
سفر میں جب تلک رہنا سفر کی آرزو کرنا​
گھروں میں بیٹھ کر بیتے سفر کی گفتگو کرنا​
جنھیں روٹھے ہوئے دلدار کی بانہیں سمجھتے ہو​
وہ شاخین کاٹ لانا پھر انہیں زیبِ گلو کرنا​
تمہیں دیکھیں نہ دیکھیں ایک عادت ہے ، کہ ہر شب کو​
تمہارے خواب کی سونے سے پہلے آرزو کرنا​
غمِ نا آگہی، جب رقصِ وحشت کا خیال آئے​
کہیں اوپر سے کچھ نیلاہٹیں لاکر وضو کرنا​
رفوگر، چاند نکلا ہے، نہ تارے ہیں، نہ جگنو ہیں​
رفوگر اپنے ہاتھوں کے اجالے میں رفو کرنا​
نئے چہروں سے ملنے کے لیے کیا شکل بہتر ہے​
پرانے پیرہن پر رنگ کرنا، یا لہو کرنا​
رئیس فروغ​
 

سید رافع

محفلین
کوئی محفلین اس شعر کا مطلب واضح کر دے تو بہت مہربانی ہو گی۔

غمِ نا آگہی، جب رقصِ وحشت کا خیال آئے
کہیں اوپر سے کچھ نیلاہٹیں لاکر وضو کرنا
 
Top