غزل ۔ شہر سے دور کیوں بیٹھے ہو اٹھو اور چلو : از نویدظفرکیانی

شہر سے دور کیوں بیٹھے ہو اٹھو اور چلو
جو مسائل ہیں اُنہیں فیس کرو اور چلو
روکتے ہیں ترے قدموں کو گماں کے آسیب
اب بھی منزل ہے بہت دور چلو اور چلو
زندگانی کا سفر کم نہیں ہونے والا
عمر کی راکھ کو چہرے پہ ملو اور چلو
مڑ کے دیکھو گے تو پتھر کے بھی ہو سکتے ہو
کسی آواز پہ مت کان دھرو اور چلو
کسی پل کو یونہی قدموں سے لپٹنے نہ دو
اپنی آنکھوں میں نئے خواب پرو اور چلو
ہم تو دنیا میں مسافر کی طرح ہیں پیارے
تم بھی کچھ اپنی کہو میری سنو اور چلو
منزلِ جاں سے بھی آگے ہیں بہت سے رستے
خود کو دلدل نہ کرو دیدہ ورو اور چلو
نویدظفرکیانی
 

محمد وارث

لائبریرین
اچھی غزل ہے کیانی صاحب۔

مطلع میں کیوں یک حرفی بندھا ہے جو کہ درست نہیں اور پانچویں شعر میں نہ دو حرفی بندھا ہے یہ بھی درست نہیں۔
 

الف عین

لائبریرین
وارث، نوید صاحب کتاب ہیں، تو میں نے سوچا کہ ان کو علم ہو گا، اور وہ روا سمجھتے ہوں گے، جیسا کہ اکثر تم بھی ’نہ‘ او ’کہ‘ کو دو حرفی قبول کر لیتے تھے۔
 

محمد وارث

لائبریرین
وارث، نوید صاحب کتاب ہیں، تو میں نے سوچا کہ ان کو علم ہو گا، اور وہ روا سمجھتے ہوں گے، جیسا کہ اکثر تم بھی ’نہ‘ او ’کہ‘ کو دو حرفی قبول کر لیتے تھے۔

شکریہ اعجاز صاحب، نہ اور کہ صرف مبتدیوں کی سمجھ کیلیے دوحرفی روا ہو سکتا ہے لیکن ماہرین کیلیے یقیناً نہیں، اور کیوں کو یک حرفی باندھنا تو کہیں نہیں دیکھا گیا۔
 
اور اب ؟؟؟

دور کیوں شہر سے بیٹھے ہو اٹھو اور چلو
جو مسائل ہیں انہیں فیس کرو اور چلو

کسی پل کو یونہی قدموں سے لپٹنے تو نہ دو
اپنی آنکھوں میں نئے خواب پرو اور چلو
 

الف عین

لائبریرین
کبھی کبھی سامنے کی غلطی بھی اصلاح و تصحیح سے بچ جاتی ہے سبھی سے۔
دوسرا شعر تو مزید بہتر ہو گیا ہے اس اصلاح کے بعد۔
 

محمداحمد

لائبریرین
ہم تو دنیا میں مسافر کی طرح ہیں پیارے
تم بھی کچھ اپنی کہو میری سنو اور چلو
بہت خوب ! اچھی غزل ہے نوید صاحب۔
داد حاضرِ خدمت ہے۔
 
Top