غزل ۔ صلیبیں یوں تو رستوں میں گڑی ہیں: از نوید ظفرکیانی

صلیبیں یوں تو رستوں میں گڑی ہیں
سفر ریکھائیں ہاتھوں میں گڑی ہیں
ترا بدلا ہوا چہرہ نہیں ہے
سلاخیں میری آنکھوں میں گڑی ہیں
بہت سے مان ہیں جو روکتے ہیں
یہ زنجیریں جو پیروں میں گڑی ہیں
چراغاں اس سے ہونا تھا جہاں میں
دراڑیں کیوں چراغوں میں گڑی ہیں
وہ کچھ بولے نہیں ہیں ایسا ویسا
مگر شکنیں جو ماتھوں میں گڑی ہیں
تری یادوں سے میں کترا تو جاتا
یہ کیلیں میری سانسوں میں گڑی ہیں
لہو خوابوں کا رستا جا رہا ہے
خراشیں کیسی سوچوں میں گڑی ہیں
نویدظفرکیانی
 

الف عین

لائبریرین
بہت خوب نوید۔ دلچسپ زمین نکالی ہے۔ اس مصرع پر غور کریں، میرے خیال میں یہ درست نہیں ہے۔ دراڑیں چراغوں میں؟
دراڑیں کیوں چراغوں میں گڑی ہیں
 
بہت خوب نوید۔ دلچسپ زمین نکالی ہے۔ اس مصرع پر غور کریں، میرے خیال میں یہ درست نہیں ہے۔ دراڑیں چراغوں میں؟
دراڑیں کیوں چراغوں میں گڑی ہیں

میں ہنوز کنفیوز ہوں ۔۔۔۔کیا واقعی چراغوں میں دراڑیں نہیں پڑ سکتیں؟
 
Top