ایس فصیح ربانی
محفلین
شاہین فصیح ربانی
غزل
عرصہء خواب میں رہا جائے
نام تعبیر کا دیا جائے
اس طرف بے سبب چلا جائے
جس طرف دشت کی ہوا جائے
اس یقیں سے سفر کیا جائے
آپ منزل قریب آ جائے
گھر سے مایوس کیوں ہوا جائے
سامنے ہی دیا رکھا جائے
اک جہاں درمیان حائل ہے
کیسے اس تک مری صدا جائے
وہ مری داستاں سنے نہ سنے
اپنا قصہ مجھے سنا جائے
دوسروں کو بدل نہیں سکتے
آپ ہی کو بدل لیا جائے
ہر طرف غم کی تیرگی ہے فصیح
کس طرف دل کا قافلہ جائے